جمعرات، 10 جولائی، 2025

اسیران حرم دربار یذید میں

 



سن 61ہجری میں ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو اسیران کربلا کا قافلہ اور امام حسین علیہ السلام سمیت تمام شہداء کربلا کے سر شام کے شہر دمشق لائے گئے، اس موقع پر یزید کے حکم پر پورے شہر کو سجایاگیا  اور تمام شہر میں یذیدی   ہرکاروں نے منادی کروائ کہ کوئ شہری اس دن گھروں میں نا رہے بلکہ زرق برق لباس پہن کر باہر نکلے اور اس دن کو مثل عید کے منائے اور جس وقت قیدی شہر میں داخل ہوں لوگ اپنی چھتوں پر چڑھ کر قیدیوں پر پتھراؤ کریں  ' اور پھر جب اہل حرم شہر دمشق میں داخل ہوئے  تو بچوں اور بیبیوں پر پتھروں کی بارش ہونے لگی  'لوگوں نے دیکھا  کہ یہ کیسی  قیدی  خواتین ہیں   جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں   عرب کی عورتیں  جو چادر نشین ہوتی تھیں لیکن ان کے سروں پر چادریں بھی نہیں ہیں اور معصوم کمھلائے ہوئے بچوں کے چہرے  خوف زدہ  اور بھوکے نظر آرہے ہیں   تب ایک عورت اپنے زینے سے نیچے اتر آئ اور اس نے بیبیوں  اور بچوں کی جانب  کچھ کھجوریں پھینکیں  تاکہ وہ  اسے کھالیں  'لیکن بی بی  زینب نے کہا ہم پر صدقہ  حرام ہے  اس عورت نے سوال کیا سے سوال کیا تم کون لوگ ہو؟  


بی بی نے بتایا کہ ہم آل رسول ہیں تب شام کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کے آخری نبی کا خاندان      کس بے دردی سے شہید کر دیا گیا ہے  اور خاندان رسالت کی مقدس خواتین اور آل رسول کے بچوں کو قید کرنے کا جشن منایا  جا رہا ہے ۔اور پھر اسیران کربلا کو بازاروں سے گزار کر جب یزید کے دربار میں لایا گیا امام حسین  علیہ السلام کے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھ کر یزید کے سامنے پیش کیا گیا، یزید ملعون کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس ملعون نے اس چھڑی کو امام حسین  علیہ السلام کے ہونٹوں اور دانتوں پر مارنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی اپنے کفر کا اظہار کرنے کے لیے یہ اشعار بھی پڑھتا رہا: ترجمہ: اے کاش بدر میں قتل ہونے والے میرے آبا واجداد زندہ ہوتے اور ان آل رسول کےنالہ و فریاد اور گریہ و زاری کو دیکھتے۔ وہ خوشی سے مجھے مبارکباد دیتے اور مبارک وصول کرتے، اور کہتے اے یزید تمہارے ہاتھ سلامت رہیں تم نے بہت اچھا کیا۔ ہم نے اس قوم کے بزرگوں کو قتل کر دیا ہے اپنے بدر میں مارے جانے والوں کا بدلہ برابر کر دیا ہے۔


 بنی ہاشم نے حکومت کے حصول کے لیے (نبوت کا) صرف ڈھونگ رچایا تھا ورنہ کوئی وحی نازل ہوئی اور نہ ہی آسمان سے کوئی خبر آئی۔ یہ منظر دیکھ کر دربار یزید میں موجود ایک صحابی اٹھے اور یزید کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی فرمایا : خدا کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لبوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے-صحابی رسول حضرت زید ابن ارقم بھی اس وقت در بار میں موجود تھے ان سے یہ گستاخی دیکھی نہ گئی جوشِ عقیدت میں چیخ پڑے۔ظالم! کیا کرتا ہے؟چھڑی ہٹالے، نسبتِ رسول کا احترام کر، میں نے بارہاسرکار کو اس چہرے کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ابن زیاد نے غصہ سے بیچ وتاب کھاتے ہوئے کہا۔ تو اگر صحابی رسول نہ ہوتا تو میں تیرا سر قلم کروادیتا۔ حضرت زید ابن ارقم نے حالت غیظ میں جواب دیا اتنا ہی تجھے رسول اللہ کی نسبت کا خیال ہوتا تو ان کے جگر گوشوں کو تو کبھی قتل نہ کراتا۔ تجھے ذرا بھی غیرت نہیں آئی کہ جس رسول کا تو کلمہ پڑھتا ہے انہی کی اولاد کوتہِ تیغِ کروایا ہے اور اب ان کی عفت مآب بیٹیوں کو قیدی بناکر گلی گلی پھرا رہا ہے۔یذیدیہ  جواب سن کر تلملا گیا۔ لیکن مصلحتاً خون کا گھونٹ پی کے رہ گیا۔


یذید نےحضرت زینب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ خدانے تیرے سرکش سردار اور تیرے اہل بیت کے نافرمان باغیوں کی طرف سے میرا دل ٹھنڈاکردیا یذید کی اس گستاخی کے جواب میں  بی بی زینب نے   جواب دیا - اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد)  کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔

 

۔یذید ملعون  کے جواب میں بی بی  زینب نے ایک تاریخ ساز خطبہ دیا ا اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور  'مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ کبھی ناتھکیں  (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد)  کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹھا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔


 تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔ تو سمجھتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی  نہ کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔

ختم شد


 

1 تبصرہ:

  1. کربلا کی حقانیت کے لئے یہ دلیل کافی ہے کہ یذید مٹ گیا -حسین زندہ ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر