جمعہ، 11 جولائی، 2025

استاد شہید سبط جعفر زیدی اور فن سوز خوانی

 

(کتاب اقتباس سوز خوانی کا فن )

اب تک یہ فنِ سوز خوانی جن مراحل سے گزرا ، جن گھرانوں نے اپنے بچوں کی تربیت میں اس فن کو اب تک شامل کر رکھا ہے ، سوز خوان خواتین و حضرات میں سے وہ نام جنہوں نے بیشمار شاگرد بھی تیار کئے ، اس کتاب میں تقریبا" تمام تفصیل درج کی گئی ہے۔ وہ شعرا جو محض ایک سلام یا نوحے سے کئی صدیوں کے بعد بھی عوام میں چاہے جاتے ہیں انکا بھی تذکرہ اس کتاب میں کیا گیا ہے ۔سوز خوانی کے آداب ،لوازمات ، سوز خوان ساتھیوں کی تربیت اور اپنے سربراہ سے معاونت کس قدر ضروری ہے ،اسکی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اب تک سوز خوانی پر جو کتب شائع کی گئیں ہیں انکی تفصیل بھی کتاب میں موجود ہے۔کہا جاتا ہے  اور ریکارڈ پر بھی موجود ہے کہ  شہید سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے لیےروزنامہ جنگ سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سےتکنیکی و تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھے جو بعد ازاں کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔ مستند زرائع  بتاتے ہیں  کہ ہارڈ ورڈ یونیورسٹی ،کولمبیا یونیورسٹی اور فلوریڈا میں امریکی محققین و ماہرین پروفیسر سبطِ جعفر زیدی کے دبستان سوز خوانی اور فن سوز خوانی پر تحقیقی کام کر رہے ہیں اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات ماہرین فن اساتذہ اور محققین کی نگرانی میں باقاعدہ استفادہ کررہے ہیں۔تاکہ سوز خوانی کا یہ ورثہ اگلی نسل کو منتقل کیا جاسکے۔


شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں ایک سو سے زائد سوز خواں اپنی خدمات بغیر معاوضہ کے انجام دے رہے ہیں ۔اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کار خیر کو  جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔ مختلف شہروں میں مقبول سوز خوانوں کا مختصر تعارف اور نام بھی لکھ دیئے  گئے ہیں استاد سبط جعفر زیدی کو 18 مارچ 2013ء کو پیر کے دن دوپہر کے وقت کالعدم سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے اس وقت شہید کیا جب لیاقت آباد میں قائم کالج سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد اپنے انتہائی خستہ حال موٹرسائیکل پر گھر جارہے تھےشہادت کے وقت آپ 56 برس کے تھے۔آپ کی نماز جنازہ امروہہ گراوٴنڈ انچولی میں ادا کی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء، شعراء، مدارس اور کالجز کے اساتذہ اور اپنی تعلیم سے سرفراز ہونے والے شاگردوں نے شرکت کی۔ اان کی شہادت پر صوبہ سندھ کے تمام کالجز بطور احتجاج ایک دن بند رہے۔ آپ کو وادی حسینؑ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔سبط جعفر سے نقل کیا جاتا ہے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ "مرنا تو سب کو ہے تو پھر کینسر یا روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے سے بہتر ہے کہ چلتے ہاتھ پاؤں شہادت کی موت نصیب ہو۔ ان کے کسی قریبی دوست نے باہر آنے جانے میں احتیاط برتنے کا کہا تو از راہِ مذاق کہنے لگے کہ "تم لوگ تو مجھ سے جلتے ہو، چاہتے ہی نہیں ہو کہ مجھے شہادت ملے۔" وہ ہمیشہ شہادت کے متمنی رہتے تھے یہاں تک کہ شہادت سے کئی ماہ قبل اپنے وصیت نامے کو دو منظوم کلام کی شکل میں لکھ کر گئے۔ایک کلام احباب کے نام اور دوسرا قاتلوں کے نام۔ ان دونوں کلاموں کے آخر میں انہوں نے اپنا نام شہادت سے قبل ہی *"شہید سبط جعفر بقلم خود" لکھا۔ 


سبط جعفر زیدی سنہ 1990ء سے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن سے وابستہ رہے اور پاکستان ٹیلی ویژن پر آپ نے صوتی علوم و فنون اسلامی پر "لحنِ عقیدت" کے نام سے پروگرام نشر کئے۔ آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانیانجمن محبان اولیاء کے بانی، انجمن وظیفہ سادات پاکستان اور انجمن محمدی کے صدررہےکر ایسوسی ایشن، سندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن، انجمن سوز خوانان کراچی اور آرٹس کونسل کے رکن رہے۔آپ J.D.C بورڈ کے بانی اور خادمان علم جامعہ امامیہ کے سرپرست بھی رہے۔سبط جعفر نے سندھ بھر میں 7 کالجز پانچ خیراتی ادارے، مختلف تعلیمی ادارے اور ٹنڈو آدم میں ایک سکول بنوایا جس میں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی ہا جاتا ہے کہ آپ کو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ایک ایوارڈ بھی ملا ہے۔سید سبط جعفر زیدی پاکستان کے شیعہ معاصر شاعر، سوزخواں، مصنف، استاد اور سماجی شخصیت تھے۔ سنہ 1957ء کو آپ کراچی میں پیدا ہوئے۔ سنہ 2013ء کو سپاہ صحابہ کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ سبط جعفر گورنمنٹ کالج کے پرنسپل تھے۔ آپ نے کئی کالجز، سکول اور فلاحی ادارے قائم کئے اور اردو زبان میں سوزخوانی کو حیات نو بخشی۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے آپ کو ایوارڈ ملا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ بین الاقوامی ادارہ ترویج سوزخوانی اور بعض دیگر اداروں کے بانی اور عہدے دار بھی رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر سوزخوانی کے متعدد پروگرام کئے۔ ان کی سوزخوانی پر مشتمل کئی کیسٹیں اور سی ڈیز منظر عام پر آگئی ہیں۔

سوزخوانی

سبط جعفر اپنے اشعار میں اہل بیتؑ کے صرف مصائب ہی نہیں بلکہ عقائد اور احکام پر بھی تاکید کرتے تھے۔زیدی اپنے آپ کو شاعر کے بجائے سوزخواں سمجھتے تھے۔ برصغیر میں سوز خوانی کو مجلسِ امام حسینؑ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شہید سبط جعفر زیدی سوز خوانی سے اپنی وابستگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سکول کے زمانے سے ہی سوز خوانی سے شغف تھا اور سنہ 1988ء میں شاعر اہل بیت ریحان اعظمی نے انہیں پاکستان ٹیلی ویژن لے گئے اور اسی سال ریحان اعظمی کی کوششوں سے پہلا کیسٹ منظر عام پر آگیا۔ یہ سلسلہ سنہ 2006ء تک جاری ریا اور اس وقت تک پچاس سے زائد آڈیو ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز منظر عام پر آگئیں -شہید استاد سبط جعفری زیدی کی کاوشوں سے کراچی بھر میں متعدد سوز خواں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اُن کے ہی شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوز خوانی کی مجالس میں مصائب اہل بیتؑ بیان کرتے ہیں۔سید سبط جعفر کو مختلف راگ اور سُروں کے علم پر بھی عبور حاصل تھا مگر ان کی بندشوں یعنی کمپوزیشنز میں کہیں بھی گانے یا غنا و موسیقی کا گمان تک نہیں ہوتا تھا اور وہ ذکرِ اہل بیتؑ کو گانوں کی طرز پر بیان کرنے کے سخت مخالف تھے


سوز فارسی کا لفظ ہے، جس کے معنی دکھ درد اور جلن کے ہیں اور خوانی کے معنی پڑھنے سنانے اور دہرانے کے ہیں اور سوزخوانی کے معنی دکھ درد کا بیان کے ہیں۔ اصطلاح میں مصائب اہل بیت علیہ السلام اور بالخصوص واقعہ کربلا کے منظوم کلام کو لحن یا طرز میں اور وضع کردہ طریقوں میں ادائیگی کو "سوز خوانی" کہا جاتا ہے-تالیفات -سبط جعفر زیدی نے سوز خوانی کی ترویج کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہ 1418ھ میں ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے میں باصلاحیت نوجوانوں کو سوز خوانی سکھانے کے لئے عزاداری اور عزاداروں کا تحفۃ العوام "بستہ" کے نام سے کتاب تالیف کیانٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسز کے نصاب تعلیم کیلئے کئی کتابیں تصنیف کیں جو 1985ء سے 1988ء تک متعدد بار شائع ہوئیں۔مطالعہ پاکستان، عمرانیات اور اطلاقی عمرانیات وغیرہ؛ نیز منتخبات نظم و نثر، زاد راہ، نشان راہ اور صوتی علوم و فنون اسلامی وغیرہ ان کی تالیف کردہ نصابی کتب میں شمار کیا جاتاےسوز خوانی کی ترویج کے لیے "روزنامہ جنگ" سمیت دیگر قومی اخبارات میں سوز خوانی کے حوالے سے تکنیکی تحقیقی سلسلہ وار مضامین بھی لکھتے رہے، جو بعد ازاں سنہ 1995ء کو کتابی شکل میں منظر عام پر آئ -آپ کا پہلا تکنیکی تحقیقی مضمون سوزخوانی کے نام سے سنہ 1989ء کو روزنامہ جنگ کراچی کے مڈ ویک میگزین  میں شائع ہوا۔

میں نے یہ مضمون انٹرنیٹ سے لیا ہے 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام-فضائل و مناقب

     حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد  گرامی  حضرت امام رضا علیہ الس...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر