حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت 195 ہجری میں ہوئی آپ کا اسم گرامی ،لوح محفوظ کے مطابق ان کے والد گرامی حضرت امام رضا علیہ السلام نے، محمد، رکھا آپ کی کنیت ابو جعفر اور آپ کے القاب جواد، قانع، مرتضی تھے اور مشہور ترین لقب تقی تھا۔یہ ایک حسرتناک واقعہ ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام کو نہایت ہی کمسنی کے زمانہ میں مصائب اور پریشانیوں کا سامنا ہوا انہیں بہت ہی کم وقت ماں باپ کی محبت اور شفقت و تربیت کے سایہ میں زندگی گزارنے کا موقع مل سکا۔ آپ صرف پانچ برس کے تھے کہ، جب حضرت امام رضا علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔ امام محمد تقی علیہ السلام اس وقت سے جو اپنے باپ سے جدا ہوئے تو پھر زندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا، امام محمد تقی علیہ السلام سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رضا علیہ السلام کی وفات ہو گئی، دنیا سمجھنے لگی کہ امام محمدتقی کے لیے علمی اور عملی بلندیوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا
، اس لیے اب امام جعفرصادق علیہ السلام کی علمی مسند شاید خالی نظر آئے، مگر خالق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علماء سے فقہ و حدیث و تفسیر اور کلام پر مناظرے کرتے اور ان سب کو قائل ہو جاتے دیکھا۔حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اپنے والد ماجد کے سایہ عاطفت سے ان کی زندگی ہی میں محروم ہو گئے تھے، ابھی آپ کی عمر 6 سال کی بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آپ اپنے پدر بزرگوار کی شفقت و سائہ عاطفت سے محروم کر دیئے گئے، اور مامون رشید عباسی نے آپ کے والد ماجد حضرت امام رضا علیہ السلام کو اپنی سیاسی غرض کے ماتحت مدینہ سے خراسان طلب کر لیا تھا۔ اور ساتھ میں حکم حاکم تھا کہ خاندان کا کو فرد آپ کے ہمراہ نہیں جائے گا -مدینے سے خراسان جیسے دور دراز علاقے میں لے جانے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو ازیت پہنچا کر اہل و عیال سے دور کیا جائے - جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ سب کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر خراسان تشریف لے گئے اور وہیں عالم غربت میں سب سے جدا مامون رشید کے ہاتھوں ہی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے لیے حضرت امام رضا علیہ السلام کی جدائی ہی کیا کم تھی کہ اب اپنی پھوپھی کے سایہ سے بھی محروم ہو گئے۔ ہمارے امام کے لیے کمسنی میں یہ دونوں صدمے انتہائی تکلیف دہ اور رنج رساں تھے لیکن مشیت الہی یہی تھا۔ آخر آپ کو تمام مراحل کا مقابلہ کرنا پڑا اور آپ صبر و ضبط کے ساتھ ہر مصیبت کو جھیلتے رہے۔امام جواد (ع) کم سنی میں ہی بے مثل شخصیت کے طور پر ابھرے شیعہ علماء و اکابرین کے مجمع میں دین پر وارد ہونے والے شبہات کا جواب، یحیی بن اکثم وغیرہ جیسے افراد کے ساتھ کم سنی میں مناظرے کیے، جن میں سب آپ (ع) کی منطق و علم دانش کے سامنے مغلوب ہوئے ـ یہ وہ اسباب تھے جن کی بنا پر آپ (ع) ہر دلعزیز شخصیت کے طور پر جانے پہچانے لگے۔ ایک طرف سے یہ مقبولیت عامہ حاسد علمائے دربار کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی، تو دوسری طرف ظلم و جور کی بنیادوں پر استوار ہونے والی سلطنت عباسیہ کو خطرے کا احساس ہوا۔
حضرت امام محمد تقی فضا ئل کے حامل تھے ،دنیا کے تمام لوگ اپنے مختلف ادیان ہونے کے باوجود آپ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے حیرت زدہ تھے ،آپ سات سال اور کچھ مہینے کی عمر میں درجہ ٔ امامت پر فائز ہوئے ،آپ نے ایسے علوم و معارف کے دریا بہائے جس سے تمام عقلیں مبہوت ہو کر رہ گئیں ، تمام زمانوں اور آبادیوں میں آپ کی ہیبت اور آپ کی عبقری (نفیس اور عمدہ )صفات کے سلسلہ میں گفتگو ہونے لگی۔ اس عمر میں بھی فقہا اور علماء آپ سے بہت ہی مشکل اور پیچیدہ مسا ئل پوچھتے تھے جن کا آپ ایک تجربہ کار فقیہ کے مانند جواب دیتے تھے ۔ راویوں کا کہنا ہے کہ آپ سے تین ہزار مختلف قسم کے مسائل پوچھے گئے جن کے جوابات آپ نے بیان فرمائے ہیں ۔ ظاہری طور پر اس حقیقت کی اس کے علاوہ اور کو ئی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی ہے کہ شیعہ اثناعشری مذہب کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ اہل بیت کو علم ،حکمت ،اور فصل الخطاب عطا کیا ہے اور وہ فضیلت عطا کی ہے جو کسی شخص کونہیں دی ہے ہم ذیل میں مختصر طور پر اس امام سے متعلق بعض خصوصیات بیان کر رہے ہیں :
امام نے اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ اور آغوش پدری میں پرورش پا ئی اور تکریم و محبت کے سایہ میں پروان چڑھے، جب مام رضا خراسان میں تھے تو امام محمد تقی آپ کے پاس خطوط لکھا کرتے تھے جو انتہا ئی فصاحت و بلاغت پر مشتمل ہوتے تھے ۔ امام علی رضا نے اپنی اولاد کو جو اعلیٰ تربیت دی ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ان کو ہمیشہ نیکی، اچھا ئی اور فقراء کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے تھے جیسا کہ آپ نے خراسان سے اُن کے نام ایک خط میں بسم اللہ کے بعد یوں تحریر فرمایا : ''میری جان تم پر فدا ہو میں یہ چا ہتا ہوں کہ تمہاری آمد و رفت صرف بڑے دروازے سے ہونی چا ہئے ،اور جب بھی تم سوار ہو کر نکلو تو تمہارے ساتھ سونے ،چا ندی (درہم و دینار کے سکے )ضرور ہونا چا ہئیں ،تاکہ جو بھی تم سے مانگے اس کو فوراً عطا کردو ،اور تمہارے اقرباء میں سے جو کو ئی تم سے نیکی کا مطالبہ کرے اس کو پچاس دینار سے کم نہ دینا اور تمھیں زیادہ دینے کا بھی اختیار ہے ، امام رضا نے اپنے فرزند ارجمند کے دل کی گہرا ئیوں میں مکارم اخلاق سے آراستہ کیا تھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں