بقراط کے دونوں بیٹوں تھیالیس اور ڈراکو کے ایک ایک بیٹے کا نام اپنے دادا کے نام پر بقراط تھا۔ سورانس کا کہنا ہے کہ بقراط نے علم طب اپنے باپ اور دادا سے سیکھا تھا جبکہ دوسرے علوم ڈیموکریٹس اور گور جیاس سے حاصل کیے۔ افلاطون نے مقالات حکمت میں لکھا ہے کہ بقراط نے اسکلیپیون کی شفا بخش درس گاہ سے تعلیم حاصل کی اور طب کی تربیت لی تھی۔ بقول افلاطون بقراط نے اسکلیپیون میں تھیرس کے حکیم اعظم ہیروڈیکوس آف سیلیمبریا سے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔بقراط کی بعض تصانیف میں نرمی، شفقت، انکسار، تواضع و محبت جیسی ہدایات ملتی ہیں چونکہ ہمارے ہاں اس کی تصانیف کا سب سے پہلے ترجمہ ہوا اور یہ دنیا کا کامل ترین طبیب تھا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فن طب پر لوگوں کی رائے یہاں نقل کروں۔فن طب کی اختراع و مخترع کے مختلف علماءمیں اختلاف ہے۔ اسحق بن حنین اپنی تاریخ میں کہتا ہے کہ ایک قوم اہل مصر کو فن طب کا موجد سمجھتی ہے اور ساتھ ہی ایک حکایت بھی سناتی ہے کہ پرانے زمانے میں مصر کی ایک عورت ہمیشہ رنج و غم اور غیض و غضب کا شکار رہا کرتی تھی اور ساتھ ہی چند بیماریوں مثلاًضعف معدہ، فساد خون، احتباس حیض میں مبتلا تھی۔ ایک دفعہ اتفاقاً نرنجیل شامی (ایک پودا) کو کھا بیٹھی اور تمام روگ دور ہوگئے اس تجربے سے اہل مصر نے فائدہ اٹھایا اور فن طب کا آغاز ہوگیا۔
بعض علماءفلسفے، طب اور دیگر صنائع کا موجد ہرمس (حضرت ادریسؑ) کو قرار دیتے ہیں۔ بعض اختراع کا سہرا اہل قوس (یاقولوس) کے سرباندھتے ہیں۔بعض ساحروں کو اس کا موجد قرار دیتے ہیں بعض کے ہاں اس کی ابتداءبابل، بعض کے ہاں ایران، بعض کے ہاں ہندوستان، بعض کے ہاں یمن اور بعض کے ہاں مقلب سے ہوئی۔یحییٰ نحوی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ جالینوس کے زمانے تک8 بڑے بڑے طبیب گزرے ہیں۔ اسقلیبوس اول، غورس،مینس، برمانیذس، افلاطون الطبیب، اسقلیبیوس دوم، بقراط اور جالینوس۔اسقلیبوس اول اور جالینوس کے درمیان 5560 سال کا عرصہ حائل ہے اسی طرح ہر طبیب کی وفات اور دوسرے کی ولادت تک سینکڑوں سال کے لمبے لمبے وقفے ہیں۔بقراط اپنے زمانے میں ریئس الاطباءتھا۔ یہ اسقلیبوس ثانی کے شاگردوں میں سے ہے۔ اسقلیبوس کی وفات کے وقت اس کے3 شاگرد زندہ تھے یعنی ماغاریس، فارخس و بقراط، ماغارلیس ومارخس کی وفات کے بعد بقراط ریئس اطباءقرار پایا۔ یحییٰ نحوی سکند رانی کہتا ہے کہ بقراط گیانہ وہر، کامل فاضل، تمام اشیاءسے واقف اور ایک فلسفی طبیب تھا۔
بعض لوگ اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس نے صنعت قیاس و تجربے کو اس قدر تقویت دی کہ اب کسی ردوقدح کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔بقراط پہلا حکیم ہے جس نے اپنی اولاد کی طرح غرباءکو بھی فن طب کی تعلیم دی۔ اس حکیم کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں امراءکی بے توجہی سے یہ فن مٹ ہی نہ جائے۔ اس لیے غرباءکو بھی شامل کرلیا۔ایک مؤرخ نے ذکر کیا ہے کہ بقراط بہمن بن اردشیر کے زمانے میں تھا۔ ایک دفعہ بہمن بیمار پڑ گیا اور بقراط کو بلا بھیجا۔ شہر والوں نے بہمن کی اس خواہش کے خلاف سخت صدائے احتجاج بلند کی اور کہا کہ اگر ہم سے بقراط کو چھیننے کی کوشش کی گئی تو ہم علم بغاوت بلند کر دیں گے اور سردھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ بہمن کو ان لوگوں پر رحم آگیا اور بقراط کو وہیں رہنے دیا۔ بقراط کا ظہور94 سال بخت نصر اور شاہ یمن کے چودھویں سال جلوس میں ہوا تھا۔یحییٰ نحوی لکھتا ہے کہ دنیا کے مشہور بڑے طبیبوں میں یہ ساتواں تھا اور جالینوس آٹھواں کہ جس پر یہ ریاست طب ختم ہوگئی۔ بقراط اور جالینوس میں665 سال کا عرصہ تھا بقراط کی عمر95 سال تھی جن میں سولہ سال بچپن اور طلب علم میں گزرے اور 79 سال تعلیم و تدریس میں بسر کئے۔ اس کے2 بیٹے اور1 بیٹی تھی بیٹوں کے نام تاسلوس و دارقن اور بیٹی کا نام مانارسیا۔ بہن بھائیوں سے زیادہ ذہن تھی۔ بقراط کے2پوتوں کا نام بھی بقراط تھا ایک تاسلوس اور دوسرا دارقن کا بیٹا تھا۔
تلامذہ بقراط کے اسمائیہ یہ ہیں لاذن، ماسرجس، ساوری، فولوس، اسطات، غورس،جالینوس کے عہد تک مندرجہ ذیل حضرات بقراط کے مفسر رہے: سنبلقیوس، نسطاس، دپسقوریدس الاول، طیماوس الفلسطینی، مانطیاس، ارسراطس ثانی، القیاسی بلاذیوس۔تفاسیر جالینوس بقراط کی چند کتابوں کی تفسیر جالینوس نے بھی کی ہے۔ تفصیل یہ ہے-1 کتاب عہد بقراط: جالینوس نے تفسیر کی اور حنین نے یونانی اور ابن سینا جیسے نامور طبیبوں کی کاوشوں کے طفیل طب یونانی کو حیرت انگیز ترقی ملتی چلی گئی ۔ارسطو :یہ شمالی یونان کے شہر اسٹیگرا میں 384 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کا باپ شاہی طبیب تھا ۔اس نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی مگر دس سال کی عمر میں اس کے والد کاانتقال ہو ا تو یہ اپنے والد کے ایک رشتہ دار کی سرپرستی میں آ گیا۔اٹھارہ سال کی عمر میں یہ افلاطون کی اکیڈمی میں داخل ہو ا اور 37سال کی عمر تک وہیں رہا۔اس کے بعد اس نے '' لائسم ‘‘کے نام سے اپنی اکیڈمی بنائی۔سکندر اعظم بھی ارسطو کا شاگرد تھا ۔ سکندر اعظم نے تقریباتین سال تک ارسطو سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ ارسطو علم طب، علم حیوانیات، ریاضی،علم ہئیت ، سیاسیات،طبعیات اور علم اخلاقیات میں اعلیٰ مقام رکھتا تھااسی لئے اسے اپنے دور کا سائنسدان بھی کہتے ہیں کیونکہ جب تک نیوٹن روئے زمین پر نہیں آیا تھا ،فزکس کے بنیادی اصول و ضوابط ارسطو کے تشکیل کردہ ہی چلتے رہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں