پیر، 30 اکتوبر، 2023

میں سہاگن بنی !مگر-اپنے ناول سے اقتباس

  مجھے یاد ہے منجھلی آ پا ایک بار اپنی سسرال سے آ کر بہت روئیں تھیں اور انہو ں نے کہا تھا امّا ں یہی حالات رہے تو میں فیصلہ لے لو ں گی '' ''امّا ں نے غضب ناک لہجے میں گرج کر کہا'' کیا فیصلہ لے, لے گی تو ؟تو منجھلی آپا نے کہا تھا میں رفاقت سے خلع لے لوں گی اور امّا ں غسل خا نے سے کپڑے کوٹنے والا ڈنڈا اٹھا لائیں تھیں اور انہو ں نے وہ ڈ نڈامنجھلی آپا کے سر پر جو اٹھایا ہم بہنیں چیخنے لگے اور ابّا نے اپنے کمرے سے دوڑتے ہوئے آ کر امّا ں پیچھےدھکیلتے ہوئے ان کے ہاتھ سے ڈنڈا چھینا اور کہنے لگے کیا کرتی ہو نیک بخت ،امّاں گرج کر بولیں اس کو میری نظروں سے دور کردو ورنہ آج یہ میرے ہاتھ سے مرجائے گی ،امّا ں جو کبھی کسی کو گالیاں نہیں دیتی تھیں ان کے منہ سے منجھلی آپا کے لئے گالیوں کا فوّارہ نکلا اور انہو ں نے ابّا سے چیخ کر کہا یہ اپنی بہنوں کی قبر کھودنے چلی ہے میں اسی کو ختم کر کے چھٹّی کروں اور پھر ابّا منجھلی آ پا کو ان کی سسرال چھوڑ آئے تھے پھر منجھلی آ پا ہمارےگھر کئ ہفتے تک نہیں آئیں تھیں اور اس کے بعد ہم کو پتا چلا کہ وہ موت کے منہ میں پہنچ گئ ہیں مگر ہماری امّاں کا دل نا پسیجا پھر ایک روز ابّا ان سے ملنے گئے تو واپسی پر بہت دل گرفتہ دکھائ دئے اور رات کو مجھے امّاں اور ابّا کی  باتیں کو آوازیں سنائ دینے لگیں  پہلے ابّا کی کمزور لہجے میں آواز آئ ابّا کہ رہے تھے لگتا ہے منجھلی مر جائے گی تب بھی تمھارے کان پر جوں نہیں رینگے گی تو امّاں نے ابّا کو اپنی رعب دارآواز میں جواب دیا اسلا م الدّین موت زندگی اللہ کے ہاتھ ہے وہ جتنی لائ ہے اس سے کوئ نہیں چھین سکتا ہےپھر ابّا نے امّاں سے کہا، میں منجھلی کے گھر ہوتا آیا ہوں ،اس کی طبیعت بے حد خراب نظر آرہی تھی بلکل زرد چہرہ ہو رہا ہے اور سوکھ کر کانٹا ہو گئ ہےابّا کا لہجہ منجھلی آپا کا زکر کرتے ہوئے اور بھی آزردہ ہو گیا او ر ابّا پھر کہنے لگے نیک بخت تم ہمیشہ منجھلی کو ڈانٹ کر چپ کر دیتی ہو کبھی تو اس کی بھی سن لو ، شائد وہ سچ ہی کہتی ہو ،لیکن امّاں خاموش رہیں لیکن جب ابّا نے کہا-مجھے لگتا ہے منجھلی سسرال کے دکھ ا ٹھا کر مر جائے گی تب امّاں کی خاموشی کی مہر ٹوٹی ابّا کی بات پر امّاں نے ان کو بھڑک کر جواب دیا ، اسلام الدّین پرائے لوگوں میں جگہ بنانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے،وہ اگر مشکل میں بھی ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ میں بیٹی کو بلا کر سینے پر مونگ دلنے کو بٹھا لوں ،رہا مرنے اور جینے کا حساب تو جس کی امانت ہے وہ جانے ،لیکن اللہ ہی نے تو نباہ نا ہونے کی صورت میں علیحد گی کی گنجائش رکھّی ہے ،ابّا نے دھیمے لہجے میں کہااور میں نے اپنی جاگتی آنکھو ں سے منجھلی آپا کے جنازے کو قبرستان جاتے دیکھا حقیقت یہ تھی کہ میں اپنی منجھلی آپا کی شادی سے خو ف ذدہ ہو گئ تھی

 پھر رات کے سکوت میں امّا ں کی آواز مجھ کو سنائ دی

 یاد ہے تمھاری امّاں نے تمھاری چھوٹی بہن نادر ہ کو اس کی سسرال کی مصیبتوں کا رونا سن سن کر کیسے طمطراق سے یہ کہ کر خلع دلوایا تھا کہ ہماری بیٹی کی دو روٹی ہم پر بھاری نہیں یہ خلع نادرہ نے امّاں کے گلے منڈھ کر کہا تھا،،،آ پ میری ماں تھیں ،طلاق لینے میں میری حوصلہ افزائکرنے کے بجائے مجھے سمجھا بجھا کر سسرال بھیجنا تھا ،

 یو ن طلاقن بیٹیا ں ماؤں کے کلیجے پر مونگ دلتی ہیں طلاق کے بعد سارے میکے کا جینا حرام کر کے رکھ دیتی ہیں ،یاد تو ہو گا تمھیں ،ابّا خاموشی سے سنتے رہے اور امّاں نے کہا ،اسلا م الدّین میں تم کو طعنے نہیں دے رہی ہوں بلکہ حقیقت بتا رہی ہو ں ،میرے آگے ابھی تین پہاڑ رکھّےہیں ان کو کھسکاؤں یا بیاہی کو بھی طلاقن بنا دوں انصا ف سے سوچو کہ میں کیا کہ رہی ہوں اور تمھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس دکھیا کو دوجی سسرال بھی کیسی ملی-پھر اس نے مرتے دم تک طعنے سنے کہ تو طلاقن ہے اس لئے اپنی اوقات میں رہ کر بات کر وہ تو اللہ نے اس کا پردہ رکھ کر اسے اپنے پاس بلا لیا ورنہ ساری عمر ہی روتی رہتی بہن تمھاری اسی لئے سیانوں کی کہاوت ہے "دوجے میاں سے پہلامیاں ہی بھلا "تم مرد زات ہو ایسی نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہو جس گھر میں ایک طلاق ہو جاتی ہے اس گھر میں دنیا والے رشتے ناطے کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ ہمارےساتھ بھی یہ لوگ ایسا ہی کریں گے

 ابھی دل پربھاری پتھّر رکھ کر صبر کر لو- اسی میں ہم سب کی بہتری ہے ،،امّاں کی بات کے جواب میں ابّا کی ایک ٹھنڈی سسکاری سی مجھ کو سنائ دی تم کتنی صحیح با ت کر رہی نیک بخت کہ ہم کو اب باقی کی فکر کرنی چاہئے چہ جائکہ ہم بیاہی بیٹیوں کی الجھنوں میں گرفتاررہیں اورامّاں کی باتوں کے جواب میں ابّا نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا فریال کے رشتے کا کیا ہواتو امّا ں نے ان کو جوابدیا ،ابھی تو بس سلام آیا ہے ،، جب پیام آئے تو جان لو کہ اب بیٹی کو رخصت کرنا ہے ،لیکن تمھارے ماموں کی بیٹی اپنے دیور کے لئے نرگس کا ہاتھ مانگ رہی ہے ،،میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے ہیں وہکون سے اچھّے ہیں ،ظالموں کے نرغے میں ایک منجھلی کو ہی دے کر پچھتا رہی ہوں ، ابّا نے کہا

 ہا ں نیک بخت بڑی کو اٹھائے بغیر چھوٹی کو کیسے اٹھا دیں ،نہیں اسلام الدّین بڑی چھوٹی کی کوئ بات نہیں ہے جس کا رشتہ پہلے آئے اسی کو اٹھا نا ہےدیکھ نہیں رہے ہو نرگس کیسے ڈھور ڈنگروں کی طرح منہ کو آرہی ہے رشتہ اچھّا ہوتا تو اس کوفریال سے پہلے ہی ر خصت کر دیتی امّاں نے کہا اور میں اندر سے لرز کر رہ گئ اور پھر ماحول میں رات کا سکوت چھا گیا پھر کچھ ثانئے کے بعد امّاں کی آواز آئ ،اسلام الدّ ین تم بیٹی کی طرف سے اپنا دل میلا نہیں کرنا میں نے اسکو جنم دیا ہے اس کی تکلیف پر میری کوکھ پھڑکتی ہے میں راتوں کو سکون سے سوتی نہیں ہوں مگر میں کیا کروں ،مجبور ہوں ،تم بے فکر رہو کل میں اس کی سسرال جا کر کچھ اس کے ہاتھ پر چپکےسے دے آؤں گی اب تم بھی سو جاؤ سویرے کے اٹھے ہوئے ہو امّاں نے ابّا سے کہا اور پھرشائد میں خود سو گئ تھی

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر