مولوی مشتاق اور بھٹو کے درمیان مخاصمت بہت پرانی تھی جب انیس سو ساٹھ کی دہائی کی شروعات میں بھٹو ایوب خان کی ہ میں وزیر تھے اور مولوی مشتاق مرکزی حکومت میں سیکرٹری قانون۔جب بھٹو وزیر اعظم انیس سو اکہتر میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے مولوی مشتاق کو لاہور ہائیکورٹ میں ترقی دینے سے انکار کیا تھا۔ مولوی مشتاق جو خود بھی بھٹو کی طرح دشمن کو معاف نہ کرنے والا اور انتقام پسند تھے، جنہوں نے بھٹو کو کبھی معاف نہیں کیا۔مولوی مشتاق حسین نے جو کیا وہی کچھ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا جس کا بعد میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی -اور بتا تے ہیں کہ جسٹس مولوی مشتاق حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ میں نے انہیں بھٹو کی پھانسی روکنے کی درخواست کی لیکن وہ نہ مانے اور انتقال کے بعد جب مولوی مشتاق حسین کا جنازہ جا رہا تھا تو میں بھی اس میں شریک تھا۔اداکار شاہد بتاتے ہیں کہ اس جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا اور جسٹس نسیم حسن شاہ سمیت ان سب ججوں کو مکھیوں نے کاٹا، جنہوں نے بھٹو کو سزائے موت دی تھی، اس وقت صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے شائد یہ اس فیصلے کا ردعمل تھا۔جسٹس مولوی مشتاق حسین کا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔بھٹو نے سینیارٹی نظرانداز کرتے ہوئے انہیں چیف جسٹس نہیں بنایا تھا لہذا مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کے خلاف فیصلہ سنانے میں انصاف کے سب تقاضوں کو پامال کیا۔
مولوی مشتاق حسین نے جو کیا وہی کچھ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی لیکن یہاں ہمیں ان ججوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جنہوں نے تمام تر دباؤ کے باوجود فوجی جرنیلوں کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے لکھنے سے انکار کیا۔انہی میں سے ایک بہادر جج چوہدری غلام حسین بھی تھے۔ وہ انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت کے سربراہ تھے۔ ان کی عدالت میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ریلوے اسٹیشن میں بم دھماکا کرانے کا مقدمہ زیرسماعت تھا۔ چوہدری صاحب نے اپنی کتاب ''جج، جرنیل اور جنتا‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ ایک دن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے مجھے بلایا اور کہا کہ بھٹو کے خلاف فیصلہ سنا دو تو تمہیں ہائی کورٹ کا جج بنا دوں گا۔ چوہدری صاحب نے انکار کر دیا لہذا وہ ہائی کورٹ کے جج نہ بن سکے اور پھر مولوی مشتاق حسین کو نواب محمد احمد خان قتل کیس میں بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانا پڑی۔
چوہدری غلام حسین کی کتاب پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے کبھی کبھی کچھ منصفوں کو انصاف کی بجائے ناانصافی بھی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ناانصافی کرنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے، جو مولوی مشتاق حسین کا ہوا۔ نہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مولوی مشتاق ہیں نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو، پھر بھی نہ جانے کیوں وقت کے پرانے گنبد سے یہ سوال باز گشت بن کر ذہن سے ٹکرانے لگا ہے ”مولوی مشتاق کسے یاد ہے؟“۔مولوی مشتاق محض ایک جج کا نام نہیں۔ پاکستان کے اکثر لوگوں کے ساتھ ایک سلوک کا نام ہے۔ تاریخ کے گالوں پر اسی تھپڑ کا نام ہے۔ یاد ہے ملک کے منتخب اور تاریخ کے متنازع لیکن مقبول ترین وزیر اعظم کی پنجاب ہائی کورٹ میں قتل کے مقدمے میں پیشیاں اور پیشیوں کے دوران مولوی مشتاق کا رویہ بھٹو کے ساتھ جلّادوں سے بھی برا تھا۔ یاد رہے ایک ایسے ہی موقع پر چیف جسٹس مولوی مشتاق نے فائل بھٹو کے وکیل ایم ڈی اعوان کے منہ پر دے ماری تھی! بھٹو کو نام کا مسلمان کہا گیا اور اس کے عقیدے کے متعلق بھی سوال اٹھائے گئے۔ وہ سلوک جو ایک وزیر اعظم تو درکنار ایک پاکستانی شہری اور ایک ملزم سے ہونا چاہئے تھا مولوی مشتاق جیسے جج نے وہ بھی ذوالفقار علی بھٹو سے گوارا نہیں کیا تھا۔
کبھی نہیں ہوا کہ اوریجنل حدود اربع والی عدالت یا ٹرائل سیشن عدالت کے بجائے قتل کا مقدمہ براہ راست ہائیکورٹ میں چلایا جائے بھٹو کے کیس میں ان کے ساتھ یہی ہوا کہ ایمرجنسی میں لاہور ہائیکورٹ میں متعین کردہ جج مولوی مشتاق حسین نے مقدمہ سیشن عدالت سے لاہور ہائیکورٹ منتقل کرنے کا حکم دیا اور جو بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مقدمہ سننے والی بنچ تشکیل دی گئی تھی اس کے سربراہ چیف جسٹس مولوی مشتاق خود تھے۔ جنرل ضیاء جو مولوی مشتاق اور بھٹو کے درمیان اس بیر کے متعلق سب جانتے تھے اور جن کی خود چھ سینئر جنریلوں کو نظرانداز کر کر چیف آف دی آرمی اسٹاف کے عہدے پرترقی دالونے والے ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل جیلانی تھے (جو بعد میں پنجاب کے گورنر اور شریف خاندان کے اصل محسن اور ان کو سیاست میں لانے والے بھی بنے) نے بھٹو حکومت کے دھڑن تختہ کرنے کے بعد مولوی مشتاق حسین کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تقرری کے احکام دیئے۔ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے نایاب موتی کے ایم صمدانی نے جب بھٹو کی ضمانت کی درخواست منظور کردی تو مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ منتقل کرنے اور خود کو اس بنچ کا سربراہ مقرر کیا، باقی سب تاریخ ہے۔اصل میں پاکستان کی بدقسمتی چار اپریل انیس سو نواسی کو نہیں اٹھارہ مارچ انیس سو اٹھہترکو شروع ہوتی ہے جب مولوی مشتاق کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں