’کام سیکھو ورنہ ہمارا خرچہ واپس دو‘دوسری جانب احمد علی بتاتے ہیں کہ کمبوڈیا میں ’جاب‘ پر پہنچ کر اُنھیں اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب انھیں آٹھ موبائل فون اور آٹھ سم کارڈ دیے گئے۔ ’مجھے نمبروں کی فہرست دے کر کہا گیا کہ اِن نمبرز پر کال کر کے کسی بھی طریقے سے ان کے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاوئنٹ کی تفصیلات اور پاسورڈز حاصل کرنے ہیں۔‘میں نے آئندہ چند روز میں کئی کالیں کیں مگر کوئی بھی شکار نہ پھنسا تو وہ مجھ پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ ایسے نہیں چلے گا۔‘وہاں موجود افراد نے احمد کو متنبہ کیا کہ وہ جلد ہی یہ کام سیکھ لیں ورنہ اُن پر جو ’اخراجات‘ ہوئے ہیں وہ انھیں واپس کرنے ہوں گے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے چند روز مزید کوشش کی مگر دھوکا دہی کا کام نہیں سیکھ سکے جس کے بعد انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری کا جھانسہ: پڑھے لکھے پاکستانی نوجوان فراڈ کا شکار کیسے ہو رہے ہیں؟
آواز کی نقل کے ذریعے آن لائن فراڈ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟دھوکا دینے پر کمیشن ملتا تھا‘انھوں نے بتایا کہ وہاں لائے گئے کئی افراد دھوکا دہی کے اس کام میں ماہر ہو چکے تھے۔ ’اُن کی انگریزی بھی بہت اچھی تھی۔ اُن میں مختلف ممالک کے لوگ تھے۔‘ان کے مطابق ’کال سینٹر‘ میں کام کرنے والوں کو کوئی باقاعدہ تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی تھی بلکہ کمیشن ملتا تھا۔ ’ایک ہزار ڈالر پر دس فیصد کمیشن ملتا تھا۔ جو اُن کو کمائی کر دیتا وہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے اور اس کو کھانا پینا بھی بہتر دیا جاتا تھا۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’وہاں روزانہ بریفنگ ہوتی تھی اور بتایا جاتا کہ اب وہ کس ملک کے لوگوں کو کال کریں گے اور کس بینک یا کاروباری ادارے کے نمائندے بنیں گے۔‘وہ بتاتے ہیں کہ عموماً کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان کی جانب سے کیے گئے فراڈ کا شکار بن جاتے تھے جبکہ کئی لوگ انعامات کے لالچ میں بھی پھنس جاتے تھے۔
علی کے مطابق عموما کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان فراڈز کا شکار ہو جاتے,اختر علی کے مطابق عموما کم پڑھے لکھے اور بڑی عمر کے افراد زیادہ آسانی سے ان فراڈز کا شکار ہو جاتے تھےیہ سب کام کیسے ہوتا تھا؟اختر علی کے مطابق کال سینٹر سے کی جانے والی کالیں خودکار نظام کے تحت ریکارڈ ہو رہی ہوتی تھیں۔’جیسے ہے کوئی شخص فریب میں آ کر اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاؤئنٹ یا دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔‘نصیب ساجد کا کہنا ہے وہاں کام کرنے والے کچھ لوگ تجربے کی بنیاد پر اتنے ماہر ہوگئے تھے کہ وہ شکار کی آواز سُن کر بتا دیتے تھے کہ یہ شخص پھنسے گا یا نہیں۔جس کے بارے میں انھیں اندازہ ہو جاتا کہ یہ نہیں پھنسے گا تو اس پر وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔‘رہائی کیسے ممکن ہوئی؟اختر علی بتاتے ہیں کہ کال سینٹر والوں نے انھیں بعدازاں بتایا کہ انھیں ایجنٹ سے دو ہزار ڈالرز میں خریدا تھا۔
ایک روز انھوں نے بتایا کہ اب تک تم پر پانچ ہزار ڈالر خرچ ہو چکے ہیں، لہذا یہ رقم واپس کرو۔ وہ مجھے اور دیگر کچھ اور افراد کو جو کام نہیں سیکھ پا رہے تھے، سونے نہیں دیتے تھے اور تشدد بھی کرتے تھے۔‘علی نے بتایا کہ وہ لوگ انھیں فون دیتے اور گھر والوں کو کال ملانے کا کہتے۔ ’جب ہم فون کرتے تو وہ ہمیں کرنٹ لگاتے اور گھر والوں سے کہتے کہ جلدی پیسے بھجوائیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والے پریشان ہو کر وہ پیسے بھجواتے مگر وہاں موجود افراد یہ کہہ کر مزید رقم کا مطالبہ کرتے کہ ہمارے کھانے پینے اور دیگر چیزوں پر ہونے والے اخراجات بڑھ چکے ہیں۔نصیب ساجد کہتے ہیں کہ ناکام ہونے پر انھیں بھی تشدد کا بنایا گیا۔اس ہی دوران وہاں پہلے سے موجود ایک لڑکا اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ واپس پاکستان چلا گیا تھا۔ اُن کی کینیڈا میں موجود ایک پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر رضوان خالد چوہدری نے مدد کی تھی۔ اس نے جاتے جاتے پروفیسر کا رابطہ نمبر ہمیں دے دیا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ نمبر اپنے گھر والوں کو دیا اور انھوں نے پروفسیر
ڈاکٹر رضوان کے ذریعے کمبوڈیا کی پولیس سے رابطہ قائم کیا۔ساجد کے مطابق پہلے انھیں گرفتار کر کے جیل میں رکھا گیا اور پھر پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔جیسے ہے کوئی شخص اپنے کریڈٹ کارڈ، بینک اکاوئنٹ اور دیگر معلومات فراہم کرتا تو چند ہی منٹوں میں اس کا اکاونٹ، کریڈٹ کارڈ خالی کر دیا جاتا۔
لڑکیاں بھی مجرموں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہیں‘پروفیسر ڈاکٹر رضوان یونیورسٹی آف واٹر لو میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔اُن کا کمبوڈیا میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر سائبر فراڈ کے مراکز میں پھنسے والے افراد سے رابطہ اپنے ایک شاگرد کی توسط سے ہوا جس کا بڑا بھائی اس گروپ کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ کچھ سال قبل اپنے شاگرد کے بھائی کو چھڑانے کے لیے انھیں بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک پچاس کے قریب لوگوں کو اس گروہ کے چنگل سے چھڑا چکے ہیں۔ ان کے مطابق زیادہ تعداد پاکستانیوں کی ہے مگر اس میں انڈین اور دیگر ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر رضوان کہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی سینکڑوں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جن میں کچھ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہ گروہ ملازمت اور کام کے بہانے لوگوں کو بلا لیتے ہیں۔ ’جو سائبر فراڈ کر سکتا ہے وہ اسے رکھ لیتے ہیں جو یہ فراڈ کام نہیں کر سکتا ہے اسے کھانا بھی بہت کم ملتا ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں