اتوار، 23 فروری، 2025

سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی مرحوم

 روحانی اسکالر، سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی کی نماز جنازہ اور تدفین ہفتے کو مرکزی مراقبہ ہال میں کر دی گئی، نماز جنازہ مرحوم کے صاحب زادے ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے پڑھائی ، نماز جنازہ اور تدفین میں عزیزو اقارب خاندان ، سلسلہ عظیمیہ کے ہزاروں اراکین ،مختلف اخبارات کے مالکان ، ایڈیٹرز ، صحافیوں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ممتاز شخصیات نے شرکت کی ،مرحوم خواجہ شمس الدین عظیمی کاسوئم عظیمیہ جامع مسجد،سیکٹر 4سی، سرجانی ٹاؤن میں اتوار 23 فروری کو صبح11 بجے سے بعد نماز ظہر تک ہوگا -بین الاقوامی شہرت یافتہ روحانی اسکالر ، سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ خواجہ شمس الدین عظیمی انتقال کر گئے ۔خواجہ شمس الدین عظیمی کا انتقال کراچی میں ہوا ۔خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ شمس الدین عظیمی فالج اور ہارٹ اٹیک کے باعث 10 روز زیر علاج رہے ۔انتظامیہ سلسلہ عظیمیہ کے مطابق خواجہ شمس الدین عظیمی 17 اکتوبر 1927 کو سہارنپور، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے تصوف ، سیرت النبیؐ ،روحانیت ،مراقبہ ، کلر تھراپی کے موضوعات پر کئی مقبول عام کتابیں لکھیں۔سلسلہ عظیمیہ کے زیر اہتمام پاکستان کے چالیس سے زائد شہروں ، برطانیہ ،امریکا ،روس ،مشرق وسطیٰ کے ممالک سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں مراقبہ ہال قائم کئے ۔ آپ کی کتب بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے نصاب میں شامل ہیں ۔خواجہ شمس الدین عظیمی ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اور ماہنامہ قلندر شعور کے بانی، روحانی علاج پر بہت مقبول کالم نگار اور بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے ۔ 


ممتاز عالم دین، دانشور، محقق، مصنف اور سلسلہ عظیمیہ کے مرشد خواجہ شمس الدین عظیمی جمعے کے دن 98 سال کی عمر میں کراچی میں رحلت فرما گئے۔ عظیمی صاحب ایک روایتی بزرگ یا پیر نہیں تھے بلکہ انھوں نے روحانیت کو سائنسی اور جدید انداز میں پیش کر کے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔خواجہ صاحب ماہنامہ ’’روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل‘‘ اور میگزین ’’قلندر شعور‘‘ کے بانی چیف ایڈیٹر تھے۔اپ کا معروف کالم ’’روحانی ڈاک‘‘ اپنے دور کی ایک تاریخی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ اس کالم کے ذریعے اپ نے لاکھوں افراد کے سماجی، نفسیاتی اور روحانی مسائل کے حل تجویز کیے۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی روحانی تعلیمات نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا اور ان میں روحانیت کے حقیقی مفہوم کو اجاگر کیا۔


عظیمی صاحب نے روحانی تربیت کے لیے مراقبہ ہالز کو ایک ادارے کے طور پر قائم کیا اور اس کے نیٹ ورک کو دنیا بھر میں وسیع تر بنایا۔آپ نے امریکا یورپ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک میں منعقد پروگراموں میں شرکت کی اور وہاں کے لوگوں کو روحانی تعلیمات سے روشناس کرایا، آپ کی تقریریں کتابیں اور ورکشاپس عالمی سطح پر ایک وسیع اثر پیدا کرنے کا سبب بنی۔نئی نسل کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے عظیمی صاحب نے پاکستان بھر میں 60 سے زیادہ مراقبہ حال قائم کیے جب کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اسی طرح کے 26 مراکز قائم کیے گئے جن میں 13 مراکز یورپی ممالک میں اور چار امریکا میں ہیں۔ ان کے علاوہ کینیڈا، متحدہ عرب امارات، بحرین، تھائی لینڈ، روس ڈنمارک، ہالینڈ اور ناروے میں بھی روحانی مراکز قائم کیے۔-پاکستان جیسے   ملک میں جہاں پیری مریدی  کا کاروبا اپنے عروج پر ہے وہیں خواجہ شمس ادین عظیمی کے روحانی مر کز میں آ نے والوں سے  ان کا مسلک نہیں  پوچھا جاتا تھا بلکہ قران کریم سے یا رنگ و روشنی کے زریعے انسانیت کی  بھلائ تقسیم کی جاتی تھی اور یہ یہ بھلا ئ اب ان کے پیشرو تقسیم کرتے  رہیں گے


عظیمی صاحب نے روحانی علوم پر کتب ہی نہیں لکھی بلکہ انھیں ایک مکمل نصاب کی شکل دی۔عظیمی صاحب نے تعلیمی میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اپ نے عظیمی پبلک اسکول قائم کیا جو کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے خاندان کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ان کی کتابیں جن میں ’’احسان و تصوف‘‘ اور ’’ایک سو ایک اولیاء اﷲ خواتین‘‘ اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ روحانیت ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کی فلاح کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا پیشتر حصہ روحانی علوم کی تدریس تحقیق اور اس کے فروغ کے لیے واقف رکھا۔نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے لیے آپ کا کتابچہ ’’روحانی نماز‘‘ اور روحانی بیماریوں کے علاج کے لیے آپ کی کتابیں ’’روحانی علاج‘‘ اور ’’رنگ و روشنی سے علاج‘‘ یعنی Colour Therapy منفرد حیثیت کی مالک ہیں۔ عظیمی صاحب پر کولمبو انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکالر نے پی ایچ ڈی بھی کی، اس کے علاوہ دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ پر تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر تین جلدوں پر مشتمل ایک شاندار کتاب تصنیف کی۔


ایک تحقیق کے مطابق عظیمی صاحب کی تعلیمات اور تربیت کا اہم مقصد انسان کے طرز فکر کو مثبت بنانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کا طرز فکر مثبت نہ ہوگا، آپ نہ تو زندگی میں سکون حاصل کر سکتے ہیں اور نہ فلاح انسانیت کے لیے کوئی کام دلجمی سے کر سکتے ہیں۔ آپ کی علمی اور روحانی خدمات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ آپ کی کئی کتابیں مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔آپ کو کئی یونیورسٹیوں نے اعزازی پروفیسر کا درجہ دے رکھا تھا۔آپ کی پوری زندگی ایک مشن کے طور پر دنیا کے سامنے ائی۔اور وہ اپنی  تمام  زندگی خدا کی  مخلوق کی   بلا معاوضہ خدمت کرتے ہوئے  مالک کل کے حضور حاضر ہو گئے 

 


1 تبصرہ:

  1. خواجہ جہ مرحوم بے بدل روحانی عالم تھے -اللہ مغفرت فرمائے آمینٍ

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر