شاردہ دیوی کی مقدس عمارت شاردہ کے وسط میں کشن گنگا (نیلم) دریا کے بائیں کنارے واقع ہے۔ شاردہ سنگم مقدس زیارت سے چند گز نیچے واقع ہے جہاں تینوں مقدس ندیاں یعنی کشن گنگا (نیلم) سرسوتی یا کنکوریا(سرگن نالہ) اور مدھومتی (شاردہ نالہ) آپس میں ملتی ہیں۔دنیا میں کسی بھی تہذیب کے ارتقاء میں آب و ہوا، نباتات، جنگلی حیات، ماحول، رسم و رواج، علاقائی ساخت، یہ تمام چیزیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہزاروں سالوں کے تغیر کے نتیجے میں تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور تناور ہوتے ہی نظریات و عقائد کی وارث کہلانے لگتی ہیں۔ فطرت انسانی صدیوں سے غیر مرئی اور مافوق الفطرت قوتوں کی اطاعت میں راحت محسوس کرتی ہے۔3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیاء میں آنے والے سراس وات برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس درے میں آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ دیوی انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہیں جن کے نام پر شاردہ گاﺅں آج بھی تابناک تاریخ اور اجڑے مقامات لیے موجود ہے۔شاردہ دیوی کو علم، حکمت، ہنروفنون کی دیوی قرار دے کر صدیوں پوجا کی جاتی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اسے شکتی (طاقت) لکشمی (دولت) دیوی بھی قرار دیا گیا۔ وشنووتی، شیو مت، بدھ مت، جین مت اور ہندو دھرم کے عقائد کے باہم متصل ہونے سے یہاں سے مخلوط المذاہب تہذیب و ثقافت نے جنم لیا جو رواداری، برداشت اور احترام پر مبنی قرار پائی۔
آج ہندوستان اور سری لنکا سمیت متعدد ممالک میں شاردہ دیوی کے پیروکار موجود ہیں۔ بالخصوص نیپال کے کشن خاندان کے شہزادے کنشک اول (25 سے 60 عیسوی) جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی شاردہ مندر بنوایا تھا، ان کی نسل آج بھی نیپال میں موجود اور شاردہ دیوی کو مقدس مانتی ہے۔ملک و بیرونِ ملک سے ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
شاردہ کسی زمانے میں بہت بڑی درسگاہ رہی ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔چینی سیاح ہیون شانگ (631 عیسوی) کے بقول بدھ مت کشمیر کا طاقتور ترین مذہب مانا جاتا تھا اور اسی دور میں بدھوں کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ہندوستانی پنجاب کے شہر جالندھر میں منعقد ہوئی جس کے اثرات وادیء کشمیر پر بھی مرتب ہوئے تھے۔ نیپال اور بدھ مت کا تعلق ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم، حکمت اور ہنر کی دیوی شاردہ کو وہاں آج بھی تقدس حاصل ہے۔برہمن سماج کے دور 880 سے 1320 عیسوی تک شاردہ دیوی کو تقدس اور تہذیب کو عروج حاصل رہا۔ اسی دور میں شاردہ رسم الخط بھی تخلیق کیا گیا جو صدیوں تک رائج رہا۔
تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ دنیا بھر سے علم، روحانیت اور گیان کے حصول کے لیے طالب علم آئے، خود کو علم سے منور کیا اور شاردہ دیوی کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ کنشک اول کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء اور ایشیاء کی اہم ترین درسگاہ کہلائی۔ یہاں بدھ مت کی تعلیم کے ساتھ منطق، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ، معاشرت، روحانیت کی دیوناگری رسم الخط کے ذریعے تعلیم دی جاتی رہی۔شاردہ میں دیوی کا مندر آج بھی کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں پر لگائے گئے بھاری بھرکم پتھر عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی اس وقت اتنے بڑے پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے اور پھر انہیں ایک دوسرے کے اوپر کیسے چڑھایا گیا۔بڑے بڑے پتھروں کی 18 سے 28 فٹ اونچی دیواروں میں شمالاً، جنوباً مستطیل درس گاہ کے درمیان میں کنشک اول کا تعمیر کروایا ہوا بغیر چھت کا چبوترہ موجود ہے جس کا کوئی نام اور تقدس ضرور رہا ہوگا۔تقریباً 36 فٹ بلند چبوترے کا داخلی دروازہ مغرب کی سمت ہے جو نقش و نگار اور مذہبی تحریروں یا علامات سے مزین ہے۔ شاردہ کی قدیم عبادتگاہ و درسگاہ تک پہنچنے کے لیے 63 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہار رہی ہیں۔ آٹھ بڑے بڑے پتھروں سے بنی دیوار اپنی اصلی حالت میں تو موجود نہیں لیکن اب اس کے آثار باقی ہیں۔
کشمیر: پانچ ہزار سال قدیم شاردہ یونیورسٹی ’جہاں گرامر ایجاد ہوئی‘شاردہ ٹورسٹ لاجز کے نگران جان شیر خان نے بتایا: ’شاردہ کا نام ہی علم و ادب کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہی دنیا کو علم و ادب سے روشناس کروانا ہے بلکہ دنیا کی گرامر بھی شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہے۔‘وادی نیلم میں ’تین ہزار سال قبل مسیح‘ میں تعمیر ہونے والے شاردہ یونیورسٹی -پاکستان کا زیر انتظام کشمیر سیاحت کے حوالے سے تو ایک منفرد حیثیت رکھتا ہی ہے، لیکن یہاں کی وادی نیلم کا ایک حصہ ایسا ہے، جو تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔وادی نیلم کی تحصیل شاردہ میں واقع ’تین ہزار سال قبل مسیح‘ میں تعمیر ہونے والے شاردہ یونیورسٹی اس علاقے کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جان شیر خان نے بتایا کہ ’اس یونیورسٹی کے بارے میں پنڈت کلہن اپنی راج ترنگنی میں تفصیلاً ذکر کرتے ہیں کہ یہ تین ہزار سال قبل مسیح میں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور عبادت گاہ تھی۔‘انہوں نے بتایا کہ ’یہاں پر پوری دنیا بشمول جاپان، سنگاپور اور چین سے لوگ زیارت کے لیے آتے تھے، اس کے ساتھ ہی مدہومتی نالہ ہے، جس میں آ کر وہ سب سے پہلے غسل کرتے تھے اور پھر پاک صاف ہو کر یہاں آتے تھے۔‘شاردہ یونیورسٹی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’زائرین یہاں آ کر قیمتی زیورات اور پیسے اس کی نذر کرتے تھے اور منتیں بھی مانگتے تھے۔‘جان شیر خان نے یونیورسٹی کے تعلیمی پہلوؤں کے متعلق بتایا کہ ’اس یونیورسٹی میں ہیئت، منطق اور فلسفے کی تاریخ یہ بھی ہے کہ دنیا کی زبانیں شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہیں۔
’شاردہ کا نام ہی علم و ادب کی دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہی دنیا کو علم و ادب سے روشناس کروانا ہے بلکہ دنیا کی گرامر بھی شاردہ یونیورسٹی کی ایجاد ہے۔‘نیورسٹی کی تاریخی اہمیت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’1400 سال تک تو اس کی تاریخ ملتی ہے کہ کشمیر کے سب سے بڑے بادشاہ زین العابدین بڈ شاہ نے جب س یونیورسٹی کی شہرت سنی تو زیارت کے لیے اس یونیورسٹی آئے ۔‘بقول جان شیر خان: ’تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت انہوں نے یہاں کے طلبہ میں چھ لاکھ کی مٹھائی تقسیم کی۔‘انہوں نے بتایا کہ شاردہ یونیورسٹی کی لائبریری دنیا کی سب سے بڑی لائبریری تھی۔ اس میں پانچ لاکھ کتابیں تھیں۔ اس جامعہ کے کیمپس تو انڈر گراؤنڈ ہو گئے مگر عبادت والا شعبہ ابھی تک دیکھا جا سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس عبادت گاہ کے اندر ایک بہت بڑا تالاب تھا جس میں جلد کے مسائل کے شکار افراد آ کر غسل کرتے تھے اور شفا پاتے تھے۔
آثار قدیمہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک پر شکوہ عمارت میں قائم ایک عظیم درسگاہ تھی
جواب دیںحذف کریں