جمعہ، 21 فروری، 2025

پنشن کٹوتی کا ظالمانہ فیصلہ -معذور بچے بیوائیں کہاں جائیں

 

 

کیا صرف وفاق اور پنجاب حکومت پر ہی آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ سرکاری ملازمین کی پنشن،گریجویٹی اور لیو اِن کیشمنٹ میں کمی لائی جائے۔   اِس وقت صورتحال سب کے سامنے ہے اسلام آباد میں بڑا مظاہرہ ہو چکا ہے اور ملازمین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کی کال دے دی ہے۔لاہور میں مظاہرے جاری ہیں اور پنجاب بھر سے آئے ہوئے ہزاروں ملازمین نے ناصر باغ سے سیکرٹریٹ تک ریلی نکالی۔یہ احتجاج بڑھتا جائے گا کہ سرکاری ملازمین کی مشترکہ تنظیم اگیگا نے پنشن کے نئے قوانین کی واپسی اور گریجویٹی کے طریقہ کار میں تبدیلی واپس لینے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔امر واقعہ یہ ہے ہمارے حکمران ہوں یا ایلیٹ کلاس وہ کبھی زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلے نہیں کرتی۔ایک طرف وہ نوالہ چھین لینے جیسے اقدامات کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے لئے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔پنشن پر کٹ لگانے والے عین اسی وقت اپنی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافہ کر لیتے ہیں۔

اب وفاق سے بھی خبر آ گئی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دو سو فیصد اضافے کی منظوری دیدی گئی۔چند روز پہلے  پروفیسر محمد جاوید ملک ریٹائر ہوئے۔شب خون یہ مارا گیا کہ جو یکم دسمبر2024ء سے پہلے ریٹائرہو گئے انہیں پرانے حساب سے پنشن اور کمیوٹیشن ملی،جو اُس کے بعد ہوئے وہ لاکھوں روپے کے فوائد سے محروم ہو گئے۔محمد جاوید ملک سے ایک دن پہلے جو پروفیسر ریٹائر ہوئے انہیں ایک لاکھ 75 روپے پنشن ملی جبکہ محمد جاوید ملک کو صرف ایک لاکھ17ہزار روپے ماہانہ پنشن کی منظوری دی گئی ہے گویا انہیں 48ہزار روپے ماہانہ کا نقصان ہوا ہے، اُسی طرح کمیوٹیشن کی مد میں بھی انہیں 30لاکھ روپے کم ملے ہیں۔سرکاری ملازمین کا ریٹائرمنٹ کے بعد دور بہت مشکل کا ہوتا ہے۔انہیں گھر بنانا ہوتا ہے،بچوں کی شادیاں کرنی ہوتی ہیں، دوا دارو اور دیگر اخراجات کے لئے پیسے درکار ہوتے ہیں۔گویا پہلے سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں ایسے میں یہ پنشن ہی ہے جو اُن کا پردہ رکھتی ہے وگرنہ تو وہ سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔

ان کا یہ پردہ رکھنے کی بجائے انہیں معاشی لحاظ سے بے آسرا کر دینا ایک ایسا ظلم ہے جس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔باہر کی دنیا میں سینئر سٹیزن کا ایک نظام موجود ہے جس کے تحت60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے اور دیگر مراعات بھی ملتی ہیں وہاں یہ ضروری نہیں کہ صرف سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ پر ہی وظیفہ یا پنشن ملے گی،جو بھی60سال کی عمر کو پہنچ گیا، حکومت نے اس کی کفالت سنبھال لی۔ وظیفہ بھی اتنا پُرکشش ہوتا ہے کہ تمام ضروریات پوری ہو جاتی ہیں اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ہمارے ہاں پوری آبادی کے سینئر سٹیزن کو کوئی وظیفہ دینا تو کجا،جو چند فیصد سرکاری ملازمین ہیں،انہیں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد جو پنشن ملتی ہے اُس پر بھی شب خون مارا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف کا نام لے کر ہمارے ہاں بہت سے ظلم روا رکھے جا رہے ہیں۔ہمارے حکمران آئی ایم ایف کے سامنے پر سوال کیوں نہیں رکھتے کہ سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن نہیں ملے گی تو ان پڑھے لکھے بزرگوں کا گذارا کیسے ہو گا۔ یہ سوال اِس لئے بھی نہیں رکھتے کہ پھر آئی ایم ایف یہ مطالبہ کر سکتا ہے حکومت اپنے اخراجات کم کرے۔

اپنے شاہانہ پروٹوکول اور لاکھوں گاڑیوں کے پٹرول کی مد میں کمی لائے، ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کی بجائے اقتصادی حالات کے پیش ِ نظر کمی کرے،چونکہ یہ سب کچھ نہیں ہونے دینا اِس لئے آئی ایم ایف کی یہ بات بے چون و چرا منظور کر لینی ہے کہ سرکاری ملازمین کو پنشن کے نام پر اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسی رقم دینی ہے۔ پنشن اصلاحات میں فیملی پنشن کے قوانین بھی بدل دیئے گئے ہیں۔اب سرکاری ملازم کی بیوہ کو صرف دس سال تک پنشن ملے گی، جبکہ غیر شادی شدہ یا معذور بچے کو پنشن نہیں دی جائے گی، یہ ایک ظالمانہ فیصلہ ہے کیا یہ بیوائیں اور بچے زندہ رہنے کے لئے خیرات مانگیں گے۔ کیا یہی ہے وہ عزتِ نفس جو سرکاری ملازم ساری زندگی سنبھال سنبھال  کے رکھتے ہیں ایک عزت کا بھرم ہوتا ہے،جن کے سہارے وہ زندگی گزارتے ہیں اس بھرم کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے والے اُس سنگینی سے نابلد ہیں جو ایسے فیصلوں کے نتیجے میں سماجی کو بھگتی پڑتی ہے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز ایک طرف قرضے دینے، کسانوں 


مزدوروں کی حالت سنوارنے اور خواتین کے معاشی حالات بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہیں۔ دوسری طرف پنجاب وہ واحد صوبہ بنا ہوا ہے جو پنشن قوانین کا ملازمین پر کلہاڑا چلا رہا ہے۔اُن کی ناک کے نیچے لاہور میں سرکاری ملازمین اپنے تمام کام چھوڑکر احتجاج کر رہے ہیں۔جب وہ وزیراعلیٰ نہیں بنی تھیں تو انہوں نے سرکاری ملازمین کے مطالبات کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ معاملہ یہی پنشن اور گریجویٹی کا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ملک محمد احمد خان سول سیکرٹریٹ کے باہر ملازمین کے دھرنے میں آئے تھے،انہوں نے مریم نواز کا پیغام دیا تھا۔بعدازاں اُن سے جاتی امراء میں ملاقات بھی کرائی تھی اور احتجاج ختم ہو گیا تھا۔ آج مریم نواز وزیراعلیٰ ہیں، انہیں پنجاب کے سرکاری ملازمین کے احتجاج پر توجہ دینی چاہئے۔اُن کے نمائندوں سے ملاقات کر کے اُن کی بات سننی چاہئے،وگرنہ یہ تو ہو نہیں ہو سکتا کہ ملازمین ازخود احتجاج ختم کر کے بیٹھ جائیں اور بھول جائیں گے کوئی ظالمانہ فیصلہ بھی ہوا ہے۔پنجاب میں بھی مریم  نواز کو اِس معاملے کا نوٹس لینا چاہئے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ صورتحال کو جوں کو توں چلنے دیا جائے اور اس خوش فہمی میں رہ جائے کہ احتجاج خودبخود ہو جائے گا۔ سرکاری ملازمین اس حوالے سے خاصے سنجیدہ اور مضطرب ہیں۔ان کی بات نہ سنی گئی تو احتجاج میں شدت بھی آ سکتی ہے۔ اسلام آباد میں مظاہرین کو منتشر کرنے اور پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف جانے سے روکنے کے لئے پولیس نے لاٹھی چارج کیا،لیکن یہ اس مسئلے کا حل نہیں۔مسئلہ انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔


 کسی ایک محکمے سے تعلق نہیں رکھتا، تمام سرکاری محکموں کے ملازمین اکٹھے ہیں۔اُن کی اجتماعی تنظیم اگیگا بہت فعال ہے۔کسی بڑے واقعہ سے پہلے ان ملازمین کو مطمئن کرنے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔یہ کوئی سیاسی لوگ نہیں نہ ہی ان کا تعلق  کسی سیاسی جماعت سے ہے۔یہ ریاست کو چلانے والے سرکاری ملازمین ہیں ان کے علاوہ ہزاروں پنشنرز بھی اُن کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں۔ پنشن میں کٹوتی اور گریجویٹی میں کمی کے فیصلے واپس لے کر حکومتیں اس اضطرات کو ختم کر سکتی ہیں جسے بظاہر کسی دوسرے طریقے سے ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا پنجاب میں بھی مریم نواز   کو اِس معاملے کا نوا پھر آج کل وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وہ جتنے مرضی نوٹس لیتے رہیں، گڈ گورننس کی ایک انچ بنیاد بھی نہیں پڑے -گی
اسلام آباد سے خبرآئی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملازمین کی طرف سے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کے اعلان کا نوٹس لیا ہے،فنانس ڈویژن اور  دیگر متعلقہ اداروں سے پنشن اصلاحات اور واجبات کی ادائیگی میں کمی کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ 
،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر