ہفتہ، 22 فروری، 2025

شندور پولو فیسٹیول آ ف گلگت بلتستان

  



  قد رت  کی رعنائیا ں جہاں  چہار سو انگڑائ لیتی دکھائ دیتی ہیں  وہ پاکستان کے حسین پہاڑی علاقے  گلگت  بلتستان ہیں ۔ایک حصہ '' بلتستان'' جب کہ دوسرا ''گلگت'' کہلاتا ہے۔  تقریباً پندرہ لاکھ آبادی اور چودہ اضلاع پر مشتمل یہ صوبہ حسین وادیوں،دل موہ لینے والے میدانوں، برف پوش پربتوں، نایاب پھولوں اور رسیلے پھلوں سے لدے خوب صورت باغات کی بدولت جنت نظیر کا درجہ رکھتا ہے۔سحر انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت بھی خوب اہمیت کی حامل ہے۔ کوہِ قراقرم، کوہِ ہمالیہ اور کوہ ِہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے سنگلاخ و د ل فریب قدرتی حصار میں   یہ   علاقہ جات صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں اپنی شہرت رکھتے ہیں  لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح ہر برس گلگت  بلتستان کے خوب صورت ترین مقامات کی سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ صوبے کے اہم سیاحتی مقامات میں دیوسائی، شنگریلا،  فیری میڈوز، کچورا جھیل، خنجراب، بابوسر ٹاپ، عطا آباد جھیل، خلتی جھیل،ستپارا جھیل، راما، سرد صحرا، پھنڈر، شندور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا بھرکے لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔چند ہی برسوں میں یہ صوبہ اپنی مبہوت کر دینے والے حسن و دل کشی، سحر انگیزپربتوں اور بے پناہ قدرتی وسائل کی بدولت اپنی الگ شناخت بنا چکا ہے۔چترال میں واقع شندور ٹاپ جہاں مشہور شندور پولو میچ کھیلا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے شندور میلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس میں ملکی و غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے ۔ خوبصورت پہاڑوں ، سرسبز میدانوں، شفاف نیلگوں پانی کی نہروں ، چنار کے درختوں اور پھولوں میں گھرے اس علاقے کی خوبصورتی کشاں کشاں لوگوں کو دنیا بھر سے کھینچ لاتی ہے۔ شندور میلے کے دوران چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جاتا ہے جس کو دیکھنے کیلئے ایک بڑی تعداد جمع ہوتی ہے اور ہر حملے پر داد وتحسین کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں یہ روایت سینکڑوں سالوں سے اسی طرح چلی آرہی ہے ۔ پولو کا یہ میدان3734 میٹر کی بلندی پر شندور پاس کے پاس واقع ہے ۔


تین روزہ میچ کے دوران میدان کے گرد سیاح ٹینٹ لگاتے ہیں اور رہائش اور کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ اس دوران مختلف علاقوں اور ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہے ۔ اس میلے میں پہنچنے کیلئے عمومی طور پر سیاحوں کا سفر اسلام آباد سے شروع ہوتا ہے ،’’فور ویلر‘‘ گاڑ ی میں سوات اور دیر کی وادیوں سے گزرتے ہوئے لواری پاس سے ہوتے چترال پہنچتے ہیں۔کیلاش کی وادی بھی رستے میں پڑتی ہے ،کیلاش کے قبائل تین علاقوں میں منقسم ہیں جن میں بھمبورٹ، رمبر اور بھر شامل ہیں جنہیں سکندر اعظم کی فوج کی نسل سے قرار دیا جاتا ہے ۔کو ہ ہندوکش میں ترچ میر کی برف میں ڈھکی خوبصورت چوٹی کو بھی یہیں سے گزرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔شندور تک پہنچنے کیلئے اسلام آباد سے بذریعہ سڑک یا اسلام آباد ٹو گلگت بذریعہ ہوائی جہاز سفر اختیار کیا جاسکتا ہے ۔گلگت شہر سے خضر شندور تک سڑک بہت اچھی بنی ہوئی ہے اخلتی و پھنڈر جھیل اور شندور جھیل کے دل کو موہ لینے والے مناظر سے متاثر ہوئے بنا کو ئی سیاح رہ نہیں پاتا۔ یہاں کے خوشگوار موسم میں جولائی اگست کے مہینے میں شندور میلا منعقد ہوتا ہے جو کہ تین روز تک جاری رہتا ہے ۔شندور کو عام طور پر دنیا کی چھت کہا جاتا ہے ۔


پولو کا کھیل پاکستان میں سرکاری سطح پر بھی کھیلا جاتا رہاہے۔ پاکستان کی پولو ٹیم متعدد بار ہندوستان، ایران اور ترکی کے کامیاب دورے کر چکی ہے اور ان ممالک کی ٹیمیں بھی لاہور کے جشن میں شریک ہو چکی ہیں۔ ان ٹیموں کے علاوہ ریاستہائے امریکہ کی پولو کی ٹیم بھی کئی بار پاکستان کا دورہ کر چکی ہے۔پاکستان کے بعض کھلاڑی پولو میں عالمی سطح پر بڑا نام پیدا کر چکے ہیں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسے اس کھیل میں ایک منفرد عالمی مقام حاصل ہے۔ شاید پاکستان ہی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آج بھی پولو کا کھیل سرکاری سطح کے علاوہ اپنے پرانے اور روایتی انداز میں عمومی سطح پر بھی کھیلا جاتا ہے، اس سلسلہ میں گلگت، بلتستان اور استور کے علاقے خاص طور پر قابل ذکر ہے جو پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے میں واقع ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قدیم چینی گلگت کو ’’بڑا پولو‘‘ اور استور کو’’ چھوٹا پولو‘‘ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ قدیم ایران میں پولو سے دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ یہ کھیل بادشاہوں کا کھیل قرار پایا اور شہزادوں اور رئیس زادوں کی تربیت کا لازمی جزو قرار دے دیا گیا تھا۔ شہزادوں کیلئے جہاں شکرے اور چیتوں کے ذریعے شکار کھیلنے کا فن ضروری سمجھا جاتا تھا، وہاں ان کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ تیغ زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور پولو جیسے مردانہ کھیلوں میں بھی طاق ہوں۔ لیکن یہاں اس بات سے یہ مقصود نہیں کہ پولو کا کھیل صرف ایران کے شہزادے اور دوسرے مرد افراد تک ہی محدود تھا بلکہ ایرانی شہزادیاں اور دوسری خواتین بھی اس کھیل میں شہزادوں سے کم نہ تھیں۔ فارسی شاعری میں ایسے حوالے ملتے ہیں کہ چھٹی صدی عیسوی میں شاہ خسرو دوم( پرویز) کی ملکہ اور ان کی بعض ہمجولیاں بھی پولو کے کھیل میں مردوں کے برابر شریک رہتی تھیں۔


اس ابتدائی دور میں یہ کھیل ایران سے ہوتا ہوا پہلے عرب اور پھر چین، تبت اور جاپان میں بھی پھیل گیا۔ ان ممالک کے رسم و رواج کے مطابق اس کھیل میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں لیکن چین پہنچنے کے بعد پولو ایک کھیل ہی نہیں رہا بلکہ اس نے جنگی مشقوں کی شکل اختیار کرلی۔ قدیم چین میں پولو کی ایک ٹیم سو افراد پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور کھیل کا انداز بھی کھیل سے زیادہ چھوٹی موٹی جنگ کا نقشہ پیش کرتا تھا۔ چینی بادشاہوں کو پولو کے اچھے کھلاڑیوں سے جذباتی لگائو بھی تھا پنجی کے مقام پر خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کو الگ کرنے والی پٹی بھی واقع ہے ۔ شندور ٹاپ پر ہموار میدان ہے جو کہ شندور جھیل کے ساتھ واقع ہے جہاں گرائونڈ پر پولو میچ کھیلا جاتا ہے ۔یہ گرائونڈ سکردو کے راجہ علی شیر خان انچن نے تعمیر کروائی تھی ۔پولو ٹورنامنٹ 1936ء سے ہر سال کھیلا جاتا ہے جسے دیکھنے کیلئے ملک بھر سے اور بیرون ملک سے لوگ آتے ہیں ۔ شندور فیسٹیول میں پولو میچ کے لئے فائنل ٹیمیں منتخب کرنے کیلئے ضلع چترال اور ضلع گلگت کی ٹیموں کے درمیان متعدد میچز ہوتے ہیں ۔میچ کا وقت ایک گھنٹہ رکھا جاتا ہے اور اس میںدو وقفے ہوتے ہیں ۔گرائونڈ کو دو سو میٹر لمبا اور56 میٹر چوڑا رکھا جاتا ہے ۔ دونوں اطراف کی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کیلئے ان کے سپورٹر ز جمع ہوتے ہیں اورمیچ نہایت جوش و جذبہ اور انہماک سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس موقع پر مقامی فوک میوزک، بار بی کیو اور کیمپنگ کا بھی اہتمام ہوتا ہے ۔


 یہ کہا جاتا ہے کہ 1935 ء میں، شمالی علاقوں کے لئے برطانوی ایڈمنسٹریٹر ایولین  کوب نے نیات قبول حیات کاکا خیل کو شندور میں ایک اچھی پولیو گرائونڈ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے لوگوں کی مدد سے پولو گرائونڈ بنائی۔ بعد میں اس پولو زمین کو’’ماس جنالی‘‘ کا نام دیا گیا ۔’ماس جنالی‘‘ لفظ کھوار زبان سے حاصل کیا گیا ہے ۔لفظ ’’ماس‘‘ کا مطلب چاند اور ’’جنالی‘‘ کا مطلب ہے پولو گرائونڈ۔میجر   کوب  چاند کی چودھویں تاریخ   کی  سفید دودھیا روشنی میں پولو کھیلنے کا شوقین تھا اور شندور جھیل کے قریب پورے چاند کی رات میں پولو کھیلنے کا اپنا ہی لطف تھا جس کیلئے اس نے 37 سو میٹر کی بلندی پر پولو گرائونڈ بنواکر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تفریحی مقام بنا دیا۔جب پولوگراونڈ مکمل ہو گیا تو میجر کوب نے کاکاخیل کی خدمات کے صلہ میں ہے  انعام دینا چاہا تو کا کا  خیل نے انعام لینے سے انکا ر کرتے ہوئے اپنے علاقہ کے دریاوں میں  ٹراوٹ   مچھلی کی افزائش  کی خواہش کی -چنانچہ ٹرواٹ مچھلی کے انڈے ڈ بو ں میں پیک کر کے گلگت بلتستان پہنچا ئے گئے ۔ جہاں  ان کی بہترین افزائش کے لئے صا ف شفاف   ٹھنڈے پا نی کے دریاوں کا انتخاب کیا گیا ۔ اور ان انڈوں کی افزا ئش  پھنڈر ۔ گا ر گہ نالہ ۔ سئی نا لہ ۔ سنگل نا لہ ۔ گلمتی نا لہ ۔ بتھر یت نالہ  اوردلنا ٹی  نا لہ  میں کی گئی  ۔ دس سال کے عر صے میں  اس مچھلی کی افزا ییش میں ز بر دست کا میا بی ہو ئی ۔ ٹراو ٹ مچھلی  کی خا  صئیت یہ ہے کہ یہ ٹھنڈے  او شفاف پا نی میں رہنے کو  تر جیح دیتی ہے ۔ا س لئے یہ گر میو ں میں دریا کے رخ کے مخا لف سمت میں سفر کر تی ہے ۔ اور ا نچا ئی کی طر ف سفر کر تی ہے ۔ گلگت بلتستان میں براون یا بھورا اور رینبو یا ست رنگی ٹراو ٹ کی نسل پا ئی  جا تی ہے ۔  اس کا شمار  مز یدار مچھلیوں میں  ہو تا ہے  ۔  

1 تبصرہ:

  1. شندور پولو میلہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کا مشترکہ میلہ ہے جو ہر سال 7 سے 9 جولائی تک منایا جاتا ہے۔ یہ میلہ دنیا کے بلند ترین پولو گراونڈ شندور میں منایا جاتا ہے۔ اس میلے میں چترال اور گلگت بلتستان سے پولو کے مایہ ناز کھلاڑی شرکت کرتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر