کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند صرف چودہ چوٹیاں ہیں، جن میں سے پانچ پاک سرزمین کا حصہ ہیں؟ جن میں کے ٹو، نانگا پربت، گاشر برم ون، بروڈ پیک اور گاشر برم ٹو شامل ہیں، جبکہ سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108 ہے، جن میں ہم پانچ کا ذکر آگے کریں گے جو ٹاپ ٹین بلند پاکستانی چوٹیوں کا حصہ ہیں۔یوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ خیبر پختونخوا، پاکستان میں واقع ہے۔ سابق صدر پاکستان جناب ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔ اس کا پرانا نام گھوڑا ڈھاکہ ہے جہاں انگریزوں نے ڈھونڈ عباسیوں سمیت مقامی قبا ئل اعوان، چوہدری، مغل اور گکھڑوں کو کنٹرول کرنے اور ان پر حکومت کرنے کے لیے ایک چھاؤنی بھی تعمیر کی تھی۔ ایوبیہ کے زیریں علاقوں میں دستیاب خوب صورت جھرنے اور اور بل کھاتے راستے سیاحوں کی تفریح کا سامان ہیں۔
ایوبیہ کے نشیب و فراز راستوں سے ہوتے ہوئے ہر سال ہزاروں ملکی و غیر ملکی سیاح کالابن واٹر فال کا رخ کرتے ہیں۔ جو کے قدرت کے حسیں شاہکار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کالابن واٹر فال ایوبیہ سے تقریباً 13 کلومیٹر فاصلے پر موجود ہے۔
پارک میں کئی اقسام کے پرندے جیسا کہ سنہری عقاب، جنگلی کبوتر، گدھ وغیرہ پائے جاتے ہیں جبکہ جانوروں میں کالا ریچھ، جنگلی لومڑی اور لگڑبگھڑ پائے جاتے ہیں۔ایوبیہ نیشنل پارک میں 129 برس پرانی کچرے اور مٹی میں دبی سرنگ کو اصل حالت میں اکتوبر 2020ء کو بحال کرکے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس زیر زمین سرنگ کی تعمیر 1891 میں ایوبیہ اور خیرا گلی،مری کے درمیان کی گئی تھی جو طویل عرصہ سے بند پڑی تھی۔وزارت موسمیاتی تبدیلی اور محکمہ جنگلی حیات نے ایوبیہ نیشنل پارک میں دبی ہوئی سرنگ دریافت کی جس میں قدیم دور کی نقش و نگاری آج بھی موجود ہے۔ یہ سرنگ قدیم فن تعمیر کا شاہکار ہے جسے اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے مرمت کا کام کیا گیا۔ مٹی اور پتھروں سے بنی 240 فٹ موٹو ٹنل کی چوڑائی 4 فٹ اور اونچائی 6 فٹ ہے۔واضح رہے کہ ڈونگا گلی سے ایوبیہ تک ٹریک کی لمبائی 4 کلومیٹر ہے جبکہ ایوبیہ سے کوزہ گلی تک پیدل ٹریک کی لمبائی 10 کلومیٹر ہے۔یہ سرنگ انگریز دور کی تعمیر کا شاہکار ہے۔مری سطح سمندر سے 2300 میٹر بلندی پر واقع ہے، مری کی بنیاد 1851 میں رکھی گئی تھی اور یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدر مقام بھی رہا۔ یہاں سے آپ موسمِ گرما میں کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں کا نظارہ کر سکتے ہیں
بارش کے دنوں میں بادلوں کے کھیل تماشے اور سورج کے غروب ہونے کا منظر تو روز ہی نظر آتا ہے۔ اس تفریح گاہ کے کچھ حصے خصوصاً کشمیر پوائنٹ جنگلات سے بھرپور اور انتہائی خوبصورت ہیں۔ملکہ کوہسار مری پاکستان کا مشہور ترین سیاحتی مقام قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا جو کہ اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔اسلام آباد سے آئے یا ایبٹ آباد کی جانب سے مری کا سفر سر سبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے، گرمیوں میں سر سبز اور سردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بہت کشش کاباعث ہیں۔نتھیا گلی گلیات کا سب سے معروف پر فضا سیاحتی مقام ہے جو ضلع ایبٹ آباد میں مری کو ایبٹ آباد سے ملانے والی سڑک پر 8200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اسلام آباد سے اس کا 80 کلومیٹر ہے۔ یہاں گرمیوں میں موسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے اور اس موسم میں یہ سیاحوں سے کھچا کھچ بھرا نظر آتا ہے، جولائی اور اگست کے مہینوں میں یہاں تقریباً روزانہ بارش ہوتی ہے۔ سردیوں میں یہاں شدید سردی جبکہ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں شدید برف باری ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اس کی حدود میں داخل ہوں تو ایک بڑے پتھر پر پیراڈائز آف پاکستان لکھا نظر آتا ہے اور اس دعوے کو وہاں گھوم کر آنے والے یقیناً درست تسلیم کرلیں ، کوہ مکشپوری اور کوہ میرانجانی قریب ہی واقع ہیں۔ہرن اگر آپ ایبٹ آباد سے نتھیا گلی کی جانب روانہ ہوں تو مری روڈ پر لگ بھگ بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہرنو آتا ہے اور یہاں سے گزرنے والا کوئی بھی شخص یہاں رکے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ دریائے دوڑ کے کنارے کا یہ علاقہ اپنی خوبصورتی سے ان پر سحر طاری کرکے رکھ دیتا ہے، خاص طور پر دریا کے کنارے تو سیاحت کے لیے موزوں موسم میں روز ہی جشن کا سا سماں نظر آتا ہے-ٹھنڈیانی گلیات کا یہ خوبصورت مقام جس کے نام سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ کافی ٹھنڈا ہے اور اس کی وجہ اس کا سطح سمندر سے نو ہزارفٹ بلند ہونا ہے، اس کے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال سلسلہ کوہ واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شمال مغرب میں سوات اور چترال کے برف پوش پہاڑ ہیں۔کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ پاکستان کو کتنا جانتے اور کتنا سمجھتے ہیں؟ گرد و پیش دہشتگردی، انتہاپسندی، فرقہ واریت، کرپشن، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی۔ یعنی اچھے حوالے کم ہی ہوں گے اور جب آپ اتنے خراب حوالوں کے باوجود پاکستان سے اتنی محبت کر سکتے ہیں تو اچھے حوالے محبت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیں گے، جس کی کوئی حد نہیں۔اس بلند مقام سے ارد گرد کی بلندیوں اور ڈھلوانوں پر سیاہی مائل سبز جنگلات عجب منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ جنگل اس قدر گھنے ہیں کہ اکثر جگہ تو سورج کی روشنی بھی زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس وجہ سے درختوں کے نیچے اور سایہ دار جگہوں پر گرمیوں کے موسم میں بھی سفید برف جمی رہتی ہے اور گھنے درختوں کے بیچ میں دور سے چمکتی نظر آتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں