🌹بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۃ🌹الّلہُم صَلَی الله عَليهِ وَآلِہٖ وَسَلِّمْ🌹اھلا و سہلاً مرحبا 🌹گلستان نبوت میں امامت کے مینارہء چہارم حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت کُل عالمین کی مومن مخلوقات و جن و انس کو مبارک ہو- اور اس وقت اپ کے جد حضرت علی عليہ السلام حیات تھے ۔ آپ کا نام آپ لوح ازل میں محفوظ اسم علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن اور ابوالقاسم رکھی گئی۔ ولادت کے چند دن بعد آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد آپ کی خالہ گیہان بانو جو محمد بن ابی بکر کی زوجہ تھیں اور انہوں نے محمد بن ابی بکر کے انتقال کے بعد شادی نہیں کی تھی، نے آپ کی پرورش کی۔ دو سال کی عمر میں آپ کے دادا حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام عليہ سلام کو شہید کر دیا گیا
علی بن حسین بن علی بن ابی طالب (38-95 ھ) امام سجادؑ اور زین العابدین کے نام سے مشہور، آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھاعلامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔ سجدوں کی کثرت سے آپ کا نام سید الساجدین پڑ گیا تھا۔ ابن جوزی خصائص الائمہ کہتے ہیں:علی بن الحسین، زین العابدین املا، انشاء، بات چیت اور خطاب کرنے کی کیفیت اور اللہ کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے سلسلے میں تمام مسلمانوں پر معلمی کا حق رکھتے ہیں؛
کیونکہ آنحضرت علیہ السلام نہ ہوتے تو مسلمان اللہ کے ساتھ کلام اور راز و نیاز کرنے اور اس کی بارگاہ میں عرض حاجت کی کیفیت سے نا واقف رہتے؛ امام علیہ السلام نے لوگوں کو سکھایا کہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس طرح کلام کریں اور بارش طلب کرنے کے وقت کس زبان سے بارش کے نزول کی التجا کرے اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح اللہ کی پناہ میں چلے جائیں اور دشمنوں کا شر دور کرنے کے لیے اللہ سے درخواست کرے۔زکی مبارک اپنی کتاب التصوف الاسلامی والادب والاخلاق نے صحیفہ سجادیہ کو مختلف پہلؤوں سے انجیل کی مثال قرار دیتے ہیں، ۔ آقا بزرگ تہرانی کہتے ہیں: صحیفۂ اُولٰی، جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام تک پہنچتی ہے۔ ... اکابرین کے نزدیک متواترات اور [قطعیات] میں شمار ہوتا ہے؛ کیونکہ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ [سلسلۂ سند میں] مذکورہ تمام اصحاب
نے تمام زمانوں میں اس کی نقل کی اجازت رجال کے تمام طبقات میں اپنے مشائخ سے حاصل کی ہے -نیز محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل کے سلسلے میں دس لاکھ اسناد موجود ہیں ۔ اہل سنت کے علما میں ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی نے ینابیع المودہ میں اس کا تذکرہ کرکے اس کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے ابو المعالی محمد بن ابراہیم کلباسی (متوفٰی 1315ھ ق) نے بھی اپنی کتاب الرسالۃ فی السند الصحیفۃ السجادیۃ میں صحیفہ سجادیہ کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صحیفہ سجادیہ بخط کفعمی ـ جو صحیفہ سجادیہ کے قدیم نسخوں میں سے تھا اور کئی سال تک ایران سے نکل کر گم ہو چکا تھا ـ کا سراغ بڑی محنت کے نتیجے میں، بر صغیر میں لگایا گیا اور ثقافتی شخصیات کے توسط سے قم میں منتقل کیا گیا اور بالآخر زیور طبع سے آراستہ ہوکر شائع ہوا۔
یہ نسخہ صحیفہ کی 54 دعاؤں کے علاوہ چار مزید دعاؤں پر مشتمل ہے۔ امام سجاد :بار پروردگارا! اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیج؛ جن کو تو نے اپنی مخلواقت پر ہدائت کے لئے منتخب کیا ، اور اپنے علوم کا خزینہ اور دین کے محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر نجاست اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔امام سجاد اپنی دعاؤں کے آغاز میں اللہ کی حمد و ثناء بجا لاتے ہیں،اپ صلوات کے ورد پربہت توجہ دیتے تھے، یہاں تک کہ صحیفہ میں کم ہی کوئی دعا ہوگی جس میں لفظ صلوات سے استفادہ نہ ہوا ہو آپ علیہ السلام آخر میں اللہ سے اپنی حاجت کی درخواست کرتے ہیں۔صحیفہ سجادیہ محض خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس کی بارگاہ میں حاجت کے بیان پر ہی مشتمل نہیں ہے، بلکہ بہت سے اسلامی علوم و معارف کا مجموعہ بھی ہے –
اللہ پاک کی بڑی کرم نوازی ہے کہ اس نے ہم کو ائمہ طاہرین کی دولت سے نوازا جو رہتی دنیا تک کے لئے ہمارے رہبر و امام ہیں
جواب دیںحذف کریں