آذربائیجان (Azerbaijan) جس کو
سرکاری طور پر جمہوریہ آذربائیجان کہا جاتا ہے، یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے
بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے۔ مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان
واقع اس ملک کے مشرق میں بحیرہ قزوین، شمال میں روس، مغرب میں آرمینیا اور ترکی،
شمال مغرب میں جارجیا اور جنوب میں ایران واقع ہیں۔ آذربائیجان کے جنوب مغرب میں
واقع نگورنو کاراباخاور سات مزید اضلاع نگورنو کاراباغ کی 1994ء کی جنگ کے بعد سے
آرمینیا کے قبضے میں ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی چار قراردادوں نے آرمینیا
سے کہا ہے کہ وہ آذربائیجان کی سرحد سے اپنی فوجیں ہٹا لے۔ ملکی رقبے میں تیس مربع
کلومیٹر کے لگ بھگ کے چند جزائر بھی ہیں جو بحیرہ قزوین میں واقع ہیں۔
آذربائیجان کے موجودہ علاقے میں قدیم ترین انسانی آثار پتھر کے زمانے تک کے ملتے ہیں۔ یہ آثار مختلف غاروں میں محفوظ ہیں۔ شراب کی صراحیاں جو خشک ہو چکی ہیں، شہر خاموشاں اور مقابر میں ملی ہیں۔ یہ شراب تانبے کے دور میں بنائی جاتی تھی۔جنوبی قفقاز کو اکامینڈس نے 550 قبل مسیح میں فتح کیا تھا اور اس سے زرتشتی مذہب کو فروغ ملا۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد یہاں دیگر ملحقہ علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔عرب اموی خلیفہ نے ساسانیوں اور بازنطینیوں کو شکست دے کر قفقازی البانیہ کو فتح کر لیا۔ عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سالاریوں، ساجدی، شدادی، راوادی اور بائیدیوں کے قبضے میں رہا۔ 11 ویں صدی عیسوی کی ابتدا میں وسط ایشیا سے آنے والے ترک اوغدائی قبیلوں نے بتدریج اس علاقے پر قبضہ جمایا۔ ان بادشاہتوں میں سے پہلی بادشاہت غزنویوں کی تھی جنھوں نے 1030 میں اس علاقے پر قبضہ جمایا۔
بعد میں آنے والے سلجوقیوں پر اتابک نے فتح پائی۔ سلجوقیوں کے دور میں مقامی شعرا جیسا کہ نظامی گنجوی اور خاگانی شیروانی نے فارسی ادب کو بام عروج تک پہنچایا۔ یہ سب آج کل کے آذربائیجان میں ہوا۔ اس کے بعد یلدرمیوں نے مختصر قیام کیا اور ان کے بعد امیر تیمور آئے۔ جس کی مدد نوشیرواں نے کی۔ امیر تیمور کی موت کے بعد یہ علاقہ دو مخالف ریاستوں میں بٹ گیا۔ ان کے نام کارا کوئینلو اور اک کوئینلو تھے۔اک کوئینلو کی موت کے بعد سلطان اذن حسن نے آذربائیجان کی پوری ریاست پر حکمرانی کی۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواں شاہوں کے پاس آیا جنھوں نے 861 سے 1539تک بطور خود مختار مقامی حکمران کے اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ شیروانیوں کے بعد صفویوں کی باری آئی اور انہوں نے شیعہ اسلام اس وقت کی سنی آبادی پر زبردستی لاگو کیا۔ اس ضمن میں انہیں سنی عثمانیوں سے جنگ بھی کرنا پڑی۔
کچھ عرصہ بعد صفویوں کے زوال کے بعد کئی خانوں نے مقامی طور پر اینی حکومتیں قائم کر لیں اور ان کی باہمی لڑائیوں کا آغاز ہو گیا۔ ترکمانچی کے معاہدے کے بعد کئی علاقوں پر روسی قبضہ ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں جب روس کے زوال کا وقت آیا تو آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا نے مل کر ایک الگ متحدہ ریاست قائم کی جو مختصر عرصہ تک قائم رہی۔ مئی 1918ء میں یہ ریاست ختم ہوئی اور آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا اور اپنا نام عوامی جمہوریہ آذربائیجان رکھا۔ اس ریاست کو دنیا میں پہلی مسلمان پارلیمانی ریاست ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ دو سال بعد روسیوں نے اس پر پھر سے قبضہ کر لیا۔ مارچ 1922ء میں جارجیا اور آرمینیا کے ساتھایک نئی ٹرانس کاکیشیئن ایس ایف ایس آر بنائی جو روسی فیڈریشن کے ماتحت تھی۔ 1936ء میں یہ بھی اپنے انجام کو پہنچی اور آذربائیجان بطور سوویت سوشلسٹ
ریپبلک کے سوویت یونین میں شمولیت اختیار کی۔آذر بائیجان کا آفیشل نام ریپبلک آف آذر بائیجان ہے۔ آذر بائیجان کا نام فارسی اور ترکش زبان سے نکلا ہے۔ آزر کہتے ہیں ”آگ“ کو اور ”بائیجان“ کا مطلب حفاظت کرنے والے یعنی آگ کی حفاظت کرنے والوں کا ملک۔ اس ملک کا 92 فی صد رقبہ ایشیا اور 5 فی صد رقبہ یورپ میں پایا جاتا ہے۔اس ملک کو آگ کی حفاظت کرنے والا ملک کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اقمنڈس نے 550 قبل مسیح میں اس خطے پر فتح حاصل کی تھی اور اسی کی وجہ سے یہاں مجوسی، یعنی آگ کے بجاری مذہب کے ماننے والوں کی ترویج ہوئی۔ جس کی جھلک آج بھی جا بجا نظر آتی ہے، تاریخی طور پر یہ خطہ قفکاضی البانیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پانچویں صدی قبل مسح میں آگ کے پجاریوں نے حکومت بنائی۔ چوتھی صدی قبل مسح میں سکندر اعظم کی آمد کے بعد، یہاں دیگر ملحق علاقوں میں ایک مملکت قائم ہوئی۔ عرب اموی خلیفہ نے ساسیوں اور باذر بینیوں کو شکست دے کر قفکاضی البانیا کو فتح کیا تھا۔
عباسیوں کے زوال کے بعد یہ علاقہ سلاریوں کے قبضوں میں چلا گیا۔ گیارہویں صدی میں یہاں پر ترک قبیلوں نے قبضہ جمایا۔ اس کے بعد یہ علاقہ شیرواساحوں کے پاس آ گیا، جنہوں نے 861 سے 1539 تک حکومت کی۔ تاریخی حوالوں سے 15 صدی سے قبل آذر بائیجان سنی اکثریتی ملک تھا، جب کہ 16 صدی میں شاہ اسماعیل صفوی نے اقتدار سنبھالا، جس کے بعد یہاں پر شیعہ مسلمان مذہب اسلام کو فروغ ملا۔1918ء میں اس خطے پر روس نے قبضہ کر لیا۔ 70 سال تک سویت یونین کی غلامی میں رہنے کے بعد، 1991ء میں سوویے یونین کو افغانستان میں شکست ہوئی۔ اس کے بعد آذر بائیجان کو آزادی کا سورج دیکھنے کو ملا۔ اسی وجہ سے آذر بائیجان کے لوگ ہر سال 30 اگست کو اپنا آزادی کا دن مناتے ہیں۔مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے درمیان واقع جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک آذر بائیجان ہے۔ اس کے مشرق میں بحریہ قزوین، شمال میں روس، شمال مغرب میں جارجیا اور ترکی، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا واقع ہے۔ آذر بائیجان میں 80 فی صد آبادی شیعہ مسلمانوں کی ہے لیکن یہ ملک سیکولر ملک کہلاتا ہے
آذر بائیجان کے 7 اضلاع پر 1994ء میں آرمینیا نے قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ آرمینیا کے قبضہ کے آگے آج تک کچھ نہ کر سکا۔ آرمینیا عیسائی مذہب کے پیروکار ہیں۔ ان کی 97 فی صد آبادی عیسائی ہے۔ بلآخر آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان آج اکتوبر 2020ء میں جنگ جیسا ماحول بن چکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق آرمینیا سے چند علاقے جنگ کر کے واپس لے لئے گے ہیں، لیکن درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ تاحال جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں پاکستان اور ترکی آذر بائیجان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہر طرح سے وسائل مہیا کرنے کو بھی تیار ہیں۔آذربائیجان تیل او گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ آذر بائیجان میں گیس کے پہاڑ بتائے جاتے ہیں، جہاں سے ہر وقت گیس ہی نکلتی رہتی ہے۔ کچھ اس سرزمین کو اسی وجہ سے ”لینڈ آف فائر“ بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا پہلا ملک ہے، جہاں 1847ء میں پہلی مرتبہ خام تیل نکالا گیا تھا۔ یہاں خام تیل کو ”نفتالن“ بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ خام تیل سے غسل کرتے ہیں۔ موسم بہار، موسم خزاں میں یہاں کے تمام ہوٹل سیاحوں کی وجہ سے بک ہو جاتے ہیں۔
کیوں کہ سیاحوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خام تیل سے غسل کر سکیں، ان کا کہنا یہ ہے یہ عمل غسل 70 سے زائد بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ 12 صدی کا قصہ سناتے ہیں کہ ایک کارواں کا اونٹ بیمار ہو گیا، وہ اس کو وہیں چھوڑ کر چلے گے۔ بیمار ہونٹ کے پاس تیل کا وافر ذخیرہ موجود تھا۔ بیمار اونٹ اس میں گر گیا۔ کچھ ہفتے بعد جب وہ کارواں لوٹا تو اسی اونٹ کو بالکل تندرست پایا، تب سے لوگوں نے خام تیل کو آب شفا سمجھ کر نہانے شروع کر دیا ہے۔2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق، آذر بائیجان کی کل آبادی ایک کروڑ 46 لاکھ پانچ سو 16 افراد پر مشتمل ہے، اور اس ملک میں بے روزگاری کی شرح 13.4 فی صد کے قریب ہے۔ یہیں دنیا کا سب سے بڑا KFC بھی ہے، یہاں تعلیم کی شرح 99.8 فی صد ہے۔ یہاں کی سب سے مشہور بلڈنگ کیپسین کے کنارے واقع ہے۔ ہوٹل کی عمارت آگ کے شعلوں کے مانند دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے اس ہوٹل کو ”فلیم ٹاور“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آذر بائیجان کے دار الحکومت باکو کی جدید ترین عمارت تصور کی جاتی ہے۔ اس عمارت کو ”لینڈ آف فائر“ کے نظریے کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ ایک مسلم ملک ہے لیکن یہاں عام طور پر لڑکیاں یورپی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ یہاں خواتین میں پردے کا رواج نہیں دیکھا جاتا۔ شاید اسی لئے یہاں ایک ہزار سے زائد ایڈز کے مریض بھی پائے جاتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کی وجہ سے یہ ملک سیاحوں کے حوالے سے جنت سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور ایران، وہ ممالک ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے اس ملک کو تسلیم کیا تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان نے اسرائیل کی طرح آج تک آرمینیا کو آزاد ملک کے طور تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس ملک کا سب سے بڑا تہوار جشن نوروز ہے۔آذر بائیجان میں ایک ایسا پھول بھی پایا جاتا ہے، جو پانچ وقت کی اذان کے وقت کھل اٹھتا ہے۔ لال شہباز قلندر کے نام سے شہرت پانے والے بزرگ سید عثمان مروندی بھی اسی ملک کے گاؤں مروند میں پیدا ہوئے تھے۔ آذر بائیجان تاریخی اعتبار سے ایک مسلمان ملک ہے،جس کے اوپر یورپ کی تمدّن کی پوری پوری چھاپ ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں