حضرت غازی عباس علمدار -تعا رف وسیرت وکردار -حضرت عباس علیہ السلام کو ان دو کنیتوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ابو الفضل آپ کی اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے ایک بیٹے کا نام ''فضل'' تھا کہ جس کی وجہ سے آپ کی کنیت ابوالفضل مشہور ہے اور یہ کنیت حقیقت میں آپ کی ذات کے عین مطابق ہے کیونکہ ابوالفضل کا معنی ''جود و سخاوت کے مرکز'' ہے"حضرت عباس علیہ السلام کے لئے فقط یہ فخر ہی کافی ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کے بھائی ہیں سبحان اللہ.حضرت عباس علیہ السلام امام علی علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بہادر اور شجاع قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔
حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اہلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں میرے بیٹے حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرے
چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن غازی عباس علیہ السلام ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کر کے پالا تھا- اور اسی سبب ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فنو ن حربی ' سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصا´ علم فقہ حاصل کئے۔ 14 سال کی عمر تک وہ ثانی حیدر کہلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے ۔
باطل کے سامنے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور ہر خیر و بھلائی کا علمبردار ہو گا۔ پس تاریخ نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اہل بیت علیھم السلام کے دشمنوں کی طرف سے برپا ہونے والی جنگوں میں حضرت عباس علیہ السلام دشمنوں کے خلاف لڑنے والے ایسے مجاہد اسلام تھے کہ جن کا سامنا کوئی نہیں کر سکتا تھا'آپ کی وفا اور شجاعت بے مثال ھے- مولائے کائنات کے د ور خلافت میں جو جنگیں اسلام دشمنوں کی جانب سے مسلط کی گئیں ان جنگوں میں جناب عباس علیہ السلام نے دشمنوں کے بڑے غرور و تکبر سے بھرے ہوئے جرنیلوں کو فی النار کیا اور دشمن کی پوری فوج پر موت کی پرچھائیوں کو طاری کر دیا جناب عباس علیہ السلام کی زندگی میں لاتعداد لوگ ان کی جودوسخا کی بارش سے سیراب ہوتے رہتے تھے اور آنے والا کوئی بھی سائل اور محتاج کبھی خالی نہیں گیا تھا-حضرت عباس علیہ السلام کی شجاعت و بہادری اور ان کے تمام فضائل وکمالات کی مثال ونظیر پوری تاریخ بشریت میں نہیں مل سکتی -
یزیدی لشکر کی جانب سے پانی بند ہونے پر جہاں بڑوں نے صبر کیا۔ وہیں بچے پیاس سے نڈھال تھے اپنی پیاری بھتیجی سکینہ کے پانی مانگنے پر عباس رہ نہ سکے، مشک و علم تھاما اور دریائے فرات کی جانب روانہ ہوگئے، فرات پر پہنچ کر انھوں نے جناب سکینہ کے مشکیزے میں پانی بھرا اور خیموں کی طرف روانہ ہوئے تو یزیدی لشکر نے پیٹھ پیچھے حملہ کردیا۔نیزوں اور تیروں کی بارش میں جناب عباس کے دونوں بازو زخمی ہوگئے۔ عباسِ باوفا شہادت کے وقت بھی امام حسین اور اہل بیت رسول سے وفا نبھاتے رہے۔ بازوؤں کے زخمی ہونے کے بعد مشک کو دانتوں میں لے لیا ، لیکن لشکرِیزید کی جانب سے برسنے والے تیروں نے مشک کو بھی نہ چھوڑا۔امام حسین جب حضرت عباس کے قریب پہنچے تو وہ زخموں سے چور تھے، حضرت عباس نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں میں ہی شہادت پائی۔ انکی شہادت کے موقع پر امام حسین نے فرمایا کہ آج میری کمر ٹوٹ گئی
اپنی زندگی کے ہر مقام پر حضرت عباس علیہ السلام نے اپنے وقت کے امامؑ کا دفاع فرمایا اور ان کا اتباع کیا۔ حضرت عباس علیہ السلام اس وجہ سے فضل و کمال کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ ایسا اس لئے تھا کہ اس ہستی کے ساتھ سایہ کی مانند رہتے تھے کہ جس ہستی کو سید المرسلینؐ نے جوانان جنت کا سردار قرار دیا ہے جو انبیاء و ملائکہ مقربین کا فخر ہے جو تمام فضیلتوں کا سردار ہے اور وہ ہستی سیدالشہداء کی ذات ہے
جواب دیںحذف کریں