بدھ، 19 مارچ، 2025

پاکستان کا علمی سرمایہ ڈاکٹر محمد اجمل خان وائس چانسلر آف کراچی یونیور سٹی-part-2

  جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کے معاملات تو میری توقع سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔یہاں کوئی سسٹم آپریشنل نہیں تھا، تمام سسٹمزٕ کمپرومائز ہوچکے تھے، فنڈز میں بڑے پیمانے پر خردبُرد ہورہی تھی، شعبہ ہیومن ریسورس کا کچھ پتا نہیں تھا، غیرقانونی ترقیاں اور بھرتیاں ہورہی تھیں۔ ایک زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں نان ٹیچنگ اسٹاف کی سب سے بڑی پوسٹ گریڈ اٹھارہ کی تھی جواب گریڈ بیس ہوگئی ہے ۔ اس طرح کے بے تحاشا معاملات ایسے تھے جو خلاف ضابطہ چل رہے تھے۔ کوئی بھی اشتہار تین ماہ کے لیے موثر ہوتا ہے اگر آپ چاہیں تو اس میں چھے ماہ تک کی توسیع کردیں، لیکن ہمارے ہاں اشتہار دس، دس سال چلتے تھے۔ ہماری ساری بھرتیاں پرانی تاریخ میں ہوتی ہیں، نہ صرف بھرتیاں بلکہ انہیں تنخواہوں کی ادائیگی پرانی تاریخوں سے ہوتی ہے۔ یعنی کہ جامعہ کراچی لاکھوں روپے کی ادائیگی غیرقانونی کرتی ہے۔اس بابت ہمیں قومی احتساب بیورو (نیب) بھی کہہ چکا ہے کہ ادائیگیوں کا یہ نظام درست نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی نیب نے ہمیں ایسے 49 پوائنٹس کی نشان دہی کی ہے جہاں چیزیں غلط ہورہی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی بے تحاشا باتیں ہیں۔

 

یہاں اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن گیا تھا، ہر آدمی صبح وقت پر آتا نہیں تھا لیکن شام میں دیر تک دفتر میں بیٹھا رہتا تھا، کیوں کہ اوورٹائم لگ رہا تھا۔ اگر سچ کہا جائے تو حالات ابھی بھی بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں، مگر ہم نے بے تحاشا تبدیلیاں کی ہیں، یہاں معاملہ اتنا خراب تھا کہ آپ کتنی بھی تبدیلیاں کرلیں وہ کم ہی لگتی ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے کرپشن کے دروازے بند کرنا شروع کیے۔ پہلے ایک بینک ڈرافٹ پر پچاس، ساٹھ داخلے ہوجاتے تھے اور بعد میں وہ ڈرافٹ بھی واپس ہوجاتا تھا، ہم نے اس خردبرد کو روکنے کے لیے رقم کی وصولی اور ادائیگی کو بینک ویری فیکیشن سے مشروط کردیا کہ جب تک بینک تصدیق نہیں کرے گا۔اس وقت تک وہ ادائیگی، ادائیگی نہیں سمجھی جائے گی۔ صرف کلیکشن کو بینک کے ساتھ مربوط کرنے سے ہماری لکویڈیٹی بیس فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ تو کرپشن کے چھوٹے چھوٹے معاملات تھے،اب ہم جامعہ کراچی میں مکمل طور پر ای آر پی (انٹر پرائیز ریسورس پلاننگ) سسٹم کے نفاذ ک عمل نہ ہوسکا -


 سسٹم کے نفاذ کی طرف جا رہے ہیں، اگر ہم اسے مکمل طور پر نافذ کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ جامعہ کراچی میں داخلے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا تھا یہ پورے شہر کو پتا ہے۔ ہم نے داخلے کے نظام کو آن لائن کردیا، اب کوئی آدمی چاہے وہ گلگت میں ہو یا مٹھی میں، وہ وہاں بیٹھ کر داخلے کے تمام مراحل مکمل کرسکتا ہے، اب اسے کراچی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مکمل اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ دو سال میں ہونے والے تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال ہمیں اس ضمن میں بے ضابطگیوں کا پتا چلا تھا تو ہم نے فوراً ایسے داخلے منسوخ کردیے۔ ہمارا داخلے کا نظام ننانوے اعشاریہ نو فی صد میرٹ پر آگیا ہے۔یہی طریقۂ کار ہم ایگزامیشن پر بھی لاگو کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس پر میں اتنا بڑا دعویٰ نہیں کرسکتا کیوں کہ ایگزامینیشن کا نظام بہت بڑا ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں اور بے تحاشا کرپشن ہے، لیکن ہم نے اس میں ہونے والی کرپشن اور نقل کے رجحانات کو بتدریج کم کیا ہے، لیکن اس شعبے کو مکمل طور پر کرپشن سے پاک کرنے میں وقت لگے گا 


۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جامعہ کراچی کے ننانوے فی صد استاد بہت محنت کرتے ہیں، ایمان دار ہیں،  لیکن ماضی میں کچھ لوگ بشمول پروفیسر یہاں سرگرم تھے ، رجسٹرار آفس ان کے کنٹرول میں تھا ۔ وہ یہاں بیٹھ کر مافیا کی طرز پر معاملات چلاتے تھے وہ یہاں عملی طور پر وائس چانسلر بنے بیٹھے تھے ۔ ہم نے جامعہ کراچی کو اپنے قواعد اور ضوابط پر چلانا اور دوسروں کی مداخلت کو کم کرنا شروع کیا، ورنہ یہاں تو یہ ہوتا تھا کہ ایک صاحب آئے انہوں نے کسی طالب علم کو پاس کرنا تھا تو اس کی فائل نکلوائی، اس پر نوٹ بنوایا، رجسٹرار سے منظوری کے دستخط کروائے اور وائس چانسلر کے سامنے رکھ کر انہیں دستخط کرنے کا حکم دے دیا۔ ہم نے ان کا یہ نظام بھی ختم کردیا، تو آج جو بھی پریشانی آپ دیکھ رہے ہیں وہ کرپشن کا نظام ٹوٹنے کا ردعمل ہے۔

 

ایکسپریس: جامعہ کراچی ایک عرصے سے مالی مشکلات سے دوچار ہے، گذشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے جامعہ کے لیے ایک ارب اسی کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟ کیا اس گرانٹ سے جامعہ کراچی کی مالی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوئی؟ڈاکٹرمحمد اجمل خان: حکومت کے بہت سارے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، ہم سے بات کی، ہمارے مسائل سمجھنے کی کوشش اور ان کے حل میں دل چسپی ظاہر کی۔گورنر سندھ اور کئی وفاقی وزراء نے بھی ہم سے بہت سارے وعدے کیے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سے کیے گئے سارے وعدے حقیقت کا روپ دھار لیں گے، مگر فی الحال ہم انتظار کر رہے ہیں، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ کم از کم وہ ہماری بات سن تو رہے ہیں۔ گذشتہ سال کافی طویل عرصے کے بعد ہائرایجوکیشن کمیشن نے ہمارے لیے تقریباً۔ایک ارب اسی کروڑ روپے کی ڈیولپمنٹ گرانٹ کی منظوری دی۔ اس گرانٹ سے آرٹس فیکلٹی، سائنس فیکلٹی اور ایک ویژیول اسٹیڈیز کا بلاک بنایا جائے گا۔اس کے علاوہ ہمیں لیباریٹری کے لیے آلات خریدنے ہیں۔ اس گرانٹ کی پہلی قسط کے ڈھائی کروڑ روپے (پچیس ملین) مل چکے ہیں ۔ایکسپریس: گذشتہ ماہ جامعہ کراچی نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے کا چیک جاری کیا، اس سے جامعہ کے ماہانہ اخراجات میں کس حد تک کمی واقع ہوگی؟

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر