cript async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4942806249941506"
crossorigin="anonymous">
فوک موسیقی کے حوالے سے پاکستان کی سرزمین بہت زرخیز ہے۔ اسی لئے یہاں سے شہرت حاصل کرنے والوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر دنیا بھر میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہمارے فوک سنگرز میں طفیل نیازی ،عالم لوہار، شوکت علی، عاشق جٹ، منصور ملنگی اور دیگر بے شمار ایسے فنکار موجود ہیں جنہوں نے فوک میوزک میں نام پیدا کیا۔
ایسا ہی ایک خوبصورت نام گلو کارہ ریشماں کا بھی ہے۔ ریشماں جنہیں بلبل صحرا کا اعزاز ملا۔ ا ن کی دلنواز گائیکی نے پاک و ہند کی دھرتی پر طویل عرصہ اپنی صحرائ گائیکی کے رنگ بکھیرے وہ جب کسی مقام پر گاتیں تو ایک سماں بندھ جاتا۔ سننے والے ریشماں کی صحرائی آواز میں کھو جاتے۔ ان کی آواز ہجر کا ایسا استعارہ ہے جس میں ڈار سے بچھڑنے والی ہرنی اور کونج کی درد بھری پکار کو بخوبی محسوس کیاجا سکتا ہے۔
مئی 1947ء کو راجھستان کے شہر بیکا نیر میں ایک خانہ بدوش خاندان میں پیدا ہونے والی بچی کے والدین انتہائی غربت کے عالم میں تقسیم ہند کے فوری بعد پاکستان آ گئے اور یہاں نگری نگر ی گا کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے۔ ریشماں بچپن سے اپنی آواز گڑوی کے ساتھ ملانے لگی۔ وہ گڑوی کی آواز کی لے ملاتے ہوئے مدھر سُروں میں کھو جاتی تھی۔ اس کی آواز میں صحرائی اور دیہی ماحول کی عکاسی نمایاں نظر آتی تھی۔ وہ سادہ لباس اور سادہ زندگی گزارتی ۔ صوفیا ئے کرام اور بزرگان دین سے عقیدت اس کی آواز اور خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔
بیکا نیر کے ایک بنجارہ خاندان میں انتہائ پسماندہ خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والی میں آنکھ کھولنے والی ریشماں کو معلوم نہیں تھا کہ ایک روز ہاتھ میں پکڑی ہوئ گڑوی کے ساتھ وہ کس طرح اوج ثرّیا پر جا پہنچیں گی
-ہوا یوں کہ ریشماں کے بھائ کی شادی میں یکے بعد دیگرے رکاوٹوں کا سامنا تھا ایک اچھّی بہن ہونے کے ناطے ریشماں نے منّت مانی کہ اس کے بھائ کی اچھّی سی شادی ہوجائے تو لعل شہباز قلندر کے مزار پر مولا علی کی منقبت گائے گی-دعا کی قبولیت کی گھڑی تھی بھائ کی شادی ہوگئ تب ریشماں نے پنجاب سے سندھ کا سفر منّت بڑھانے کے لئے کیا اورمزار مبا رک پہنچ کر بے منقبت گائ۔منقبت کی گائیکی میں نا جانے کیا ا ثر تھا مجمع بھی بے خودی کے عالم خاموش ہو کر محو سماعت ہو گیا ۔اس روز شائد آسمان پر پروردگار عالم نے ر یشماں کی منقبت کو اس کا صلہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔چنانچہ اسی دن اس دور کے نامور ریڈیو پروڈیوسر سلیم گیلانی بھی درگاہ پر آئے ہوئے تھے انہوں نے ریشماں کو
اور منقبت کے ختم پر وہ ریشماں کے پاس آئے اور اپنا وزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تم جب کبھی کراچی آئو تو میرے پاس چلی آنا۔ چنانچہ ریشماں کا خاندان جب شہر آیا تو وہ پوچھتے پچھاتے ریڈیو پاکستان کراچی پہنچ گئے ۔گیٹ پر جب ریشماں نے گیلانی صاحب کا کارڈ دکھایا تو اسے فوری طور پر خاندان سمیت اندر بلا لیا گیا۔ ریشماں کا کہنا تھا کہ صحرائوں کی خاک چھاننے والی ایک سادہ سی غریب لڑکی کو جب ریڈیو کے اسٹوڈیو میں لایا گیا اور اسے کہا گیا کہ بس تم گانا شروع کرو۔ اِدھر اُدھر مت دیکھنا۔ بس پھر میں گاتی چلی گئی۔
سلیم گیلانی نے اسے صوفیانہ کلام ریکارڈ کرانے کے حوالے سے جب کچھ کہا تو بقول ریشماں مجھے ان کی بات سمجھ آئی کچھ نہ آئی۔ بہر حال وہ مائیک کے سامنے گاتی چلی گئی۔ ریشماں نے اپنے ریڈیو آڈیشن کے بارے میں بتایا کہ ریڈیو پاکستان کراچی سے اس کی گائی دھمال کیا نشر ہوئی کہ اس نے میری زندگی ہی بدل دی۔ صحرا کی یہ بلبل اپنی پہلی ہی دھمال سے ہٹ ہو گئی۔ ایک اخبار نے سرورق پر جب ریشماں کا ٹائٹل چھاپا تو بقول ریشماں میں اپنی تصویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ پھر یہ خوف بھی ہوا کہ کہیں میری بنجارہ فیملی میری تصویر دیکھ کر مجھے مار ہی نہ دے۔ اس دور میں ہمارے خاندان میں تصویر بنوانا اور پھر اس کا چھپنا بہت ہی برا سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ریشماں نے سٹال سے سارے میگزین خرید کر چھپا دیے۔
سٹال والے نے ریشماں کو پہچان لیا ۔مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ بی بی تمہاری تصویر پورے ملک نے دیکھ لی ہے۔ اب میگزین چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ریشماں میگرین چادر میں چھپا کر گھر لے گئی اور اکیلے میں گھنٹوں بیٹھی اپنی تصویر دیکھتی رہی۔ وہ پڑھی لکھی نہ تھی اس لئے وہ صرف تصویریں دیکھتی رہی ۔پھر بعد میں اس نے ایک پڑھے لکھے شخص سے جب اپنا انٹرویو سنا تو وہ بہت پریشان ہو گئی۔ اسے یقین نہ آیا کہ اس کے بارے میں اتنی تعریفیں اور باتیں لکھ دی گئی ہیں۔
ریشماں کے حوالے سے یہاں ایک اور بات بیان کرتے چلیں کہ انہیں تمام عمر اپنے تعلیم یافتہ نہ ہونے کا بہت غم رہا۔ ریشماں نے خود اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ پوری دنیا میں گائیکی کے حوالے سے بہت مشہور ہوئیں تو امریکہ کے صدر جانسن نے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ پھر جب وہ امریکی ایئرپورٹ پر اپنے خاندان کے ہمراہ جہاز سے باہر آئیں تو امریکی صدر نے ہاؤآر یو۔پہلا جملہ یہ کہا کہ تو مجھے سمجھ نہ آیا اور میں بہت ہی شرمندہ ہوئی کہ اتنے بڑے ملک کے صدر کی عزت افزائی پر میں جواب میں ایک جملہ ادا نہ کر سکی۔ بہرحال میرے ہمراہ ایک ترجمان نے بتایا کہ صدر امریکہ آپ کا حال پوچھ رہے ہیں۔ ریشماں کا کہنا تھا اس واقعہ کے بعد میں نے پاکستان واپس آتے ہی اپنے بڑے بیٹے سانول کو فوری طور پر سکول میں داخل کرا دیا اور سوچا کہ میں اسے اتنا تعلیم یافتہ ضرور بنائوں گی کہ اسے کبھی ایسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گزرتے وقت کے ساتھ اس کی طبیعت میں رکھ رکھائو اوربولنے کے آداب بھی آ گئے مگر اس کی طبیعت کی روایتی سادگی ہمیشہ قائم رہی۔ وہ کسی تصنع کے بغیر گفتگو کرتی اور ہر ایک پہ اعتبار کرتے ہوئے ہمیشہ سچ بولتی۔ گزرتے وقت کیساتھ ریڈیو سے گائے ہوئے اس کے نغمات جب سرحد پار فضائوں میں گونجے تو اسے وہاں بھی سرکاری سطح پر جانے کا موقع ملا۔ ریشماں کو دورہ ہندوستان کے موقع پر اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی قیمتی گھڑی کا تحفہ دیتے ہوئے اسے بھارت میں رہنے اور تمام تر آسائشیں دینے کا وعدہ کیامگر ریشماں نے شکریے کے ساتھ ان کی آفرکو مسترد کر دیا البتہ جہاں وہ پیدا ہوئی اور پلی تھی اس نے اپنے گاؤںط کیلئے سڑکیں بنوانے اور صحت کے حوالے سے ضروری آسائشیں مہیا کرنے کا وعدہ اندرا گاندھی سے لیا جو فوری مان لیا گیا۔اور پھر حسب معمول قدرت خدا کےچھیاسٹھ برس کی عمر میں خدائے واحد کی بارگاہ میں چلی گئ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں