منگل، 17 جنوری، 2023

احمد فراز شاعری کے آسمان کا روشن ستارہ

 



مکمل نام: سید احمد شاہ علی

تخلص: مقبول، احمد فراز

تاریخِ پیدائش: 12 جنوری 1931

مقامِ پیدائش: کوہاٹ، برٹش انڈیا، موجودہ پاکستان

تاریخِ وفات: 22 اگست 2008

مقامِ وفات: اسلام آباد، پاکستان

آخری آرامگاہ: ایچ-ایٹ قبرستان، اسلام آباد، پاکستان

والد کا نام: آغا سید محمد شاہ

تعلیمی سفر: ایم اے اردو اور فارسی، پشاور یونیورسٹی، پشاور، پاکستان

شعری وابستگی: 1950 سے 2008

احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931 کو پاکستان کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد شاہ بھی شاعر تھے۔ ایڈورڈ کالج پشاور میں طالب علمی کے دور میں ہی احمد فراز شعر و ادب  کی دنیا سے مانوس ہو چکے تھے-۔ انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں اور وہیں ان دونوں زبانوں کو کچھ عرصہ پڑھاتے رہے تاہم انھوں نے سکرپٹ رائٹر کے طور پر ریڈیو پاکستان میں بعد ازاں ملازمت اختیار کر لی۔

ازاں بعد شاعری کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد  وہ اردو شاعری کی تاریخ کے بڑے شعراء میں شامل تھے - عوام اور خواص دونوں میں مقبول، وہ برصغیر کے ان چند شاعروں میں سے ایک تھے جن کی شاعری کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ گایا بھی گیا۔  احمد فراز نے اردو شاعری اور ادب میں تقریباً ایک الگ سوچ اور فرقے کی سی حیثیت اختیار کی۔ انھیں کثرت سے عالمی مشاعروں میں دوسرے ممالک میں بلایا جاتا تھا۔ پہلے انہوں نے عشق مجاز کی دنیا میں قدم رکھّااور محبت، عشق، ہجر و وصال کی شاعری کہی لیکن رفتہ رفتہ ان کی شاعری میں ملکی حالات کی نسبت سے بغاوت اور انقلاب کی جھلک دکھائ دینے لگی اس طرح وہ انقلاب اور بغاوت کے شاعر بھی بن گئے -۔

 ان کا خود کہنا تھا ہے کہ اردو زبان میں شاعری سے پہلے انہوں نے کچھ اورزبانواں میں شاعری کی لیکن اس شاعری وہ مانوس نہیں ہو سکے اور بالآخر جب اردو زبان کی شاعری شروع کی تب ان کے دل سے آواز یہی وہ میدان جہاں ان کو شاعر کرنی ہے اور پھر زمانے نے دیکھا کہ احمد فراز نے زردو شاعری کے میدان میں  شہرت کی بلندی کے سنگھاسن پر بٹھا  دیا جس پر وہ تا دم وفات بیٹھے ہوئے تھے- ان کی شاعری کی اس جہت نے ان کو کچھ لوگوں کی نظروں معتوب کیا لیکن مگر آخر کار ان کی شہرت اور مقبولیت غالب رہی۔ ان کو پاکستان اور بیرونِ ممالک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 2004 میں ان کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلیٰ سول اعزاز ہلالِ امتیاز دیا گیا جو انھوں نے 2006 میں جنرل پرویز مشرف کی مارشل لاء حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے واپس کر دیا

احمد فراز ماضی کے ایک پورے عہد میں نوجوانوں میں بے حد مقبول رہے۔ ان کے نظریات کی بناء پر انھیں اقتدار کے ایوانوں سے بھی ٹکراؤ کا سامنا رہا اور وہ جلا وطن بھی رہے۔ 1980 میں ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں انھوں نے جلا وطنی اختیار کی اور کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ دورِ جلا وطنی میں لکھی گئی ان کی نظمیں “دیکھتے ہیں” اور “محاصرہ” کو شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔احمد فراز نے شاعری میں 13 کتابیں اپنے ادبی ورثہ میں  چھوڑیں ہیں جو سب کی سب اردو دنیا میں مقبول عام  ہیں۔ ان کی پہلی کتاب “تنہا تنہا” 1950 میں منظرِ عام پر آئی جس نے بھرپور قبولیت حاصل کی اور فراز کو شہرت ملنے لگی۔ ان کی دیگر کتابوں میں جاناں جاناں، درد آشوب، خوابِ گل پریشاں ہے، نایافت، شب خون، بے آواز گلی کوچوں میں، بودلک، غزل بہانہ کروں اور میرے خواب ریزہ ریزہ شامل ہیں۔ ان کا تمام کلام “کلیاتِ احمد فراز” کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے

احمد فراز مختلف حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ وہ 1976 میں قائم ہونے والے ادارہ اکادمی ادبیات کے بانی ڈائریکٹر جنرل تھے اور بعد ازاں اس کے چیئرمین بھی رہے۔ آخری زمانے میں وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین رہے۔ ان کے کلام کو بے شمار چھوٹے بڑے گلوکاروں نے گایا جن میں نور جہاں، غلام علی، مہدی حسن، رونا لیلیٰ اور جگجیت سنگھ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ احمد فراز کے گیت اور غزلیں فلموں کی زینت بھی بنے۔احمد فراز کا انتقال 22 اگست 2008 کو اسلام آباد میں ہوا۔ اور اسلام آباد کی زمین میں خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے

 

1 تبصرہ:

  1. حمد فراز پاکستان کے مقبول خاص و عام شاعر گزرے ہیں جن کی شاری کی خوشبو آ ج بھی پاکستان کے ادبی دامن میں بسی ہوئ محسوس کی جاسکتی ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر