بدھ، 6 نومبر، 2024

دیو سائ پارک -سیاحوں کی جنت 2

   دیو سائی کا لفظ گلگت بلتستان میں بولی جانے والی شینا زبان کا لفظ ہے جو اصل میں  دیو سے مراد دیوتا  ہے اور  سے مراد 'آبادی یا سرزمین کی ہے، پس یوں دیوسائی کا مطلب دیو کی سرزمین ہے۔ جبکہ بلتی زبان میں اسے یہاں کثیر تعداد میں موجود پھولوں کی وجہ سے بھئیر سر یعنی پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہےسائی کو1993میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا جس کی رو سے یہاں شکار پر مکمل پابندی ہے تاکہ یہاں پائے جانے والے جانوروں خصوصاً بھورے ریچھ( گُورَو اِچ) کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس وقت دیوسائی میں محض 30 ریچھ موجود ہیں کبھی یہاں سیکڑوں کی تعداد میں ریچھ گھوما کرتے تھے مگر انسانی لالچ نے اس خوبصورت اور پاکستان کے سب سے بڑے ہمہ خور جانور ( گوشت و سبزی خور) کا شکار کرکے معدومیت سے دوچار کر دیا۔ یہ ریچھ سال کے چھہ مہینے سردیوں میں نومبر تا اپریل غاروں میں سوتا رہتا ہے اس دوران اس کے جسم کی چربی پگھل کر اسے توانائی فراہم کرتی ہے۔ جب برفیں پگھلتی ہیں تو یہ اپنے غار سے نکلتا ہے۔ ریچھ کے علاوہ یہاں مارموٹ (خرگوش کی ایک نسل جسے مقامی زبان میں ترُشونِہ کہتے ہیں) تبتی بھیڑیا ،لال لومڑی، ہمالین آئی بیکس، اڑیال اور برفانی چیتے کے علاوہ   مہاجر  پرندے جن میں گولڈن ایگل، داڑھی والا عقاب اور فیلکن قابل ذکر ہیں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں تقریباً 150 اقسام کے قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے محض 10تا15 مقامی لوگ مختلف بیماریوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


چیک پوسٹ سے آگے دیوسائی کا اصل حسن آشکار ہو تا ہے۔ سرسبز ڈھلوان اور اور ان کے پس منظر میں، چرتے ہوئے خوبصورت یاک اور لمبے بال والے بکرے بہت خوبصورت نظر آتے ہیں۔ دیوسائی کے وسیع میدان پر ایک نظر ڈالیں تو طرح طرح کے رنگین پھول اور ان میں اکثر مقام پر اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے اور بازوؤں کو سینے پر باندھے مارموٹ آپ کا استقبال کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر جیسے ہی جیپ ان کے نزدیک پہنچتی ہے یہ اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ دیوسائی چاروں طرف سے چھوٹی چھوٹی برف پوش پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے جب ان پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو ان کی چمک سے یہ پہاڑ سونے کے نظر آتے ہیں، مگر یہ پہاڑیاں ہرگز چھوٹی نہیں ہیں ان کی بلندی سترہ اٹھارہ ہزار فٹ تک ہے لیکن 12 ہزار فٹ کی بلندی سے یہ محض چھوٹی پہاڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔ پورے دیوسائی میں بلندی کے باعث ایک بھی درخت نہیں ہے اس لیے پرندے اپنا گھونسلا زمین پر ہی بناتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں دیوسائی کا بلند ترین مقام چھچھور پاس آتا ہے چھچھور پاس کی بلندی سے نیچے نظر دوڑائیں تو گھاس کا ایک وسیع میدان نظر آئے گا جس کے بیچوں بیچ ا یک خوبصورت دریا بل کھاتا ہوا گذر رہا ہے  


اسکردو سے دیوسائی 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور جیپ کے ذریعے دو گھنٹے میں صد پارہ جھیل اور صد پارہ گاؤں کے راستے دیوسائی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسکردو جانے کے لیے اسلا م آباد سے روزانہ جہاز جاتا ہے جو محض 40منٹ میں اسکردو پہنچا دیتا ہے مگر فلائیٹ موسم کے مرہون منت ہوتی ہے جو کم ہی مائل بہ کرم ہوتا ہے۔ اسی لیے سیاح عموماً زمینی راستے سے اسکردو جانا پسند کرتے ہیں یہ راستہ دنیا کے آٹھویں عجوبے 774 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم پرراولپنڈی سے ایبٹ آباد، مانسہرہ، بشام، چلاس سے ہوتا ہوا بونجی کے مقام پر شاہراہ اسکردو سے جا ملتا ہے یہ راستہ تقریباً 24 گھنٹے میں طے ہوتا ہے مگر راستے کی خوبصورتی تھکن کا احساس نہیں ہونے دے تی۔ دوسرے رستے سے دیوسائی پہنچنے کے لیے راولپنڈی کے پیر ودہائی اڈے سے استور جانے والی کوچ میں سوار ہوجائیں یہ کوچ تالیچی کے مقام سے شاہراہ قراقرم چھوڑ کر استور روڈ پر آجاتی ہے اور مزید 45 کلومیٹر کے بعد استور آجاتا ہے۔ یہ سفر تقریباً 22 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لیے اسی شہر سے گذرتے تھے۔ یہاں رہائش کے لیے مناسب ہوٹل اور ایک مختصر سا بازار بھی ہے جہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں مل جاتی ہیں۔


 رات قیام کے بعد آگے کا سفر جیپ میں طے ہوگا جو استور میں بآسانی دستیاب ہیں۔ جیپ استور سے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والا دریا ہوتا ہے۔ یہ دریا مختلف مقامات پر اپنا رنگ تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پکورہ گاؤں کے مقام پر یہ شفاف چمکتا ہوا نظر آتا ہے پھر اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے۔ مزید آگے گدئی کا گاؤں ہے جہاں سے ایک رستہ بوبن کی طرف جاتا نظر آتا ہے جو ایک خوبصورت سیا حتی مقام ہے۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد چلم چوکی آتی ہے۔ یہ ایک مختصر سا گاؤں ہے جہاں کچھ دکانیں اور ایک ہوٹل ہے یہاں زیادہ تر فوجی جوان نظر آتے ہیں کیوں کہ یہیں سے ایک رستہ کارگل کی طرف نکلتا ہے۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہمالین وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ آتی ہے یہاں سے دیوسائی کے حدود شروع ہوتی ہیں۔ چیک پوسٹ پر20 روپے فی کس کے حساب سے فیس دے نی پڑتی ہے جو دیوسائی میں جانوروں کے بقا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔اگر آپ ریچھوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمالین وائیلڈ لائف والوں کی خدمات حاصل کریں۔ غرض دو دن گذارنے کے لیے یہاں کافی مواد موجود ہے۔


یہاں سے آگے سفر جاری رکھیں تو محض آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد شتونگ کیمپ سائٹ آئے گی جو شتونگ نالے کہ ساتھ ہے۔ یہاں بھی جیپ دو دریاؤں سے بمشکل گذرتی ہے۔ یہان قیام و طعام کے لیے مقامی لوگوں نے کیمپ لگا رکھے ہیں، یہاں سے مزید صرف پندرہ منٹ کے بعد دیوسائی کا آخری کونا یعنی المالک مار پاس آتا ہے یہاں بھی سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے کیمپ موجود ہے اور ساتھ ہی وائلڈ لائف چیک پوسٹ بھی ہے۔ اسی مقام سے ایک ذیلی ٹریک برجی لا ٹاپ تک جاتا ہے۔ برجی لا کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے قراقرم سلسلے کی چھ چوٹیاں K-2، براڈ پیک، گشیبرم 1، گشیبرم 2، گشیبرم4 اور مشہ برم نظر آتی ہیں۔ ایک مقام پر اتنی بلندچوٹیاں دنیا میں اور کہیں نہیں پائے جاتیں یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے۔ یہاں سے سفر اترائی کا شروع ہوتا ہے اور مزید ایک گھنٹے کے سفر کے بعد     سیاح  دنیا کی بلند  و بالا چوٹیوں سے اتر کر جب اسکردو شہر میں آ کر ان بلندیوں کو دیکھتے ہیں تو سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کیا وہ واقعئ وہاں سے ہو کر یہاں آئے ہیں -پہاڑوں سے نشیب کی جانب سفر جھیل صد پارہ سے گذر کر  اسکردو میں آ نکلتا ہے۔ اس کی نظریں بار بار صد پارہ جھیل سے پرے بلندیوں کی طرف اٹھتی ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ کیا وہ واقعی وہیں تھا دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع میں بھورے ریچھوں کے درمیان،مسحور کردینے والی خوشبوؤں اور دل موہ لینے والے رنگ برنگے پھولوں کی جھرمٹ میں۔ کیا وہ واقعی وہاں تھا یا یہ سب محض ایک خواب تھا۔

1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر