’ یورپ اور ایشاءسمیت تقریباً دنیا بھر میں ایک ”چڑیا“ پائی جاتی ہے جو عالمی سطح پر ”یوریشیئن ٹری سپیرو“(Eurasian tree sparrow) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ چڑیا تقریباً دو عشرے قبل پاکستان میں بھی بکثرت پائی جاتی تھی لیکن اب کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ ہمارے خطے میں اس چڑیا کی نسل تقریباً ختم ہوجانے کا ذمہ دار چین ہے۔چڑیاں بہت تیزی سے نسل بڑھاتی ہیں۔ یہ ایک سال میں دو سے بیس ہوجاتی ہیں۔چڑیا انسانوں کے گھروں میں گھونسلے بنانا پسند کرتی ہے۔ اسکے علاوہ درختوں کے چھوٹے موٹے سوراخوں میں بھی گھونسلہ بنا لیتی ہے۔ انسانی گھروں کو گھونسلے کے لئیے ترجیح دینے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ ائریا ان کے شکاری پرندوں سے محفوظ ہوتا ہے دوسرا یہ انسانوں کا بچا کچھا کھانا بھی کھا لیتی ہیں۔ گھروں میں بھی آپ انکے گھونسلے ٹیوب لائیٹوں کی فریموں، روشندانوں، اے سی یونٹس، چھتیوں پہ پڑے نہ استعمال ہونے والے برتن چھتوں پہ لگے پھنکے وغیرہ پہ دیکھتے ہیں۔ یہاں بھی یہ بلیوں سے بچنے کے لئیے اپنے گھونسلے بناتی ہے تاکہ اسکے پاس ان تک پہنچنے کا کوئی رستہ نہ ہو۔ اصل میں یہ چھ انچ کا پرندہ ہے اور اسکا گھونسلہ آٹھ انچ کا ہوتا ہے اس لئیے جہاں بھی اسے آٹھ انچ کی محفوظ جگہ مل جائے یہ گھونسلہ بنا ڈالتی ہے۔ ان کا گھونسلہ بنانے کا طریقہ بھی کمال ہے۔ پہلے دونوں گھاس پھوس کا ڈھیر لگاتے ہیں پھر اسکے بار ڈر میں تنکے گاڑھ کر دھاگے لگا کر اسے مضبوط کردیتے ہیں۔ مادہ کواندر کا ٹمپریچر گرم رکھنے کے لئیے پر چاہئیے ہوتے ہیں اور یہ زمہ داری چڑا پوری کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو چڑا جتنے زیادہ کھنمب لے کر آتا ہے مادہ اتنا ہی زیادہ ملاپ کرتی اور زیادہ انڈےدیتی ہے، اسکی وجہ کہ زیادہ کھنمب گھونسلے کا درجہ حرارت درست رکھیں گے اور بچوں کی افزائش بہتر ہوگی۔
۔ یہ ماحول دوست جانور ہیں ہوسکے تو آٹھ انچ کی ڈولیاں، لکڑی کے گھر یا گتے کے ڈبے میں چھوٹا سوراخ کرکے انکو کسی اونچی جگہ پر دیواروں میں لگا دیں۔ اس سے ایک تو یہ آپ کو صبح صبح جگا کر آپ کے پھیپھڑوں کو تازہ ہوا دلوائے گی ۔ دوسرا گھر میں فالتو روٹی کے ٹکڑے چاول اور کیڑے کھائے گی۔ فصلوں پہ دانوں پہ حملہ ہوتی ہو تو وہاں باز اور سانپوں کے پتلے رکھیں۔ پودینے کی بو بھی انہیں بھگاتی ہے۔ چین میں 1958ءسے اس چڑیا کے خاتمے کی مہم چلائی گئی۔ پہلی بار 1958ءمیں ماﺅزے تنگ نے چڑیا، چوہوں، مکھیوں اور مچھروں کے خاتمے کی مہم چلائی جو 1962ءتک جاری رہی۔ اس مہم میں ہی چین سے چڑیا کا تقریباً صفایا کر دیا گیا تھا۔چینی باشندوں نے ماﺅزے تنگ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے درختوں سے چڑیا کے گھونسلے اٹھا کر زمین پر دے ڈالے، اس کے انڈے توڑ دیئے اور گھونسلوں میں موجود اس کے ننھے بچوں کو بھی مار ڈالا۔ بڑی چڑیوں کو مارنے کے لیے چینیوں نے ایک انوکھا طریقہ دریافت کر لیا۔ وہ زمین پر ٹین کے ڈبے اور ڈرم مسلسل بجاتے رہتے تاکہ یہ چڑیاں ڈر کے مارے درختوں یا زمین پر بیٹھ نہ سکیں۔
جب چڑیاں اڑتے اڑتے تھک کر زمین پر گر جاتیں تو چینی انہیں ختم کر دیتے۔یہ طریقہ بہت کارگر ثابت ہوا اور مہینوں میں چین سے اس کی نسل کا صفایا ہو گیا۔یہ سب چینیوں نے اس لیے کیا کہ ان کے خیال میں کھیتوں سے چڑیوں کے بیج چگ جانے کے باعث گندم اور چاول کی پیداوار کم ہوتی تھی لیکن جب انہوں نے چڑیاں کو ختم کر لیا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ غلطی پر تھے۔ کیونکہ چڑیوں کی نسل ختم کرنے کے بعد گندم اور چاول کی پیداوار بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوتی چلی گئی۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ یہ چڑیا فصلوں کو کچھ نقصان کے ساتھ بہت سے فائدے بھی پہنچاتی تھی، کیونکہ یہ فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کو بھی کھا جاتی تھی۔ ڈچ مؤرخ فرینک ڈیکوٹر نے چین کے اس دور کو بیان کیا ہے جسے ‘دی گریٹ لیپ فارورڈ` کہا جاتا ہے جب بائیں بازو کے چین کی بنیاد رکھنے والے ماؤ زے تنگ نے پورے چین کو ترقی کی دوڑ میں مغربی ممالک کے قریب پہنچا دیا۔ماؤ نے چار قسم کے جانوروں کو نقصان دہ قرار دیا گیا۔ چوہے، مچھر، مکھیاں یا کیڑے اور چڑیاں تھیں۔ ماؤ کی گریٹ لیپ فارورڈ کا ایک حصہ چڑیوں کے خلاف مہم تھی -ماؤ چاہتے تھے کہ چینی عوام ان سے چھٹکارا حاصل کریں۔ان چند برسوں میں چین میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بتاتے ہوئے ماہر ماحولیات صحافی اور مصنف جان پلیٹ کہتے ہیں کہ ‘تاریخ فطرت کی تباہی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے، لیکن 1958 میں چین میں جو کچھ ہوا اس سے شاید ہی کسی تباہی کا موازنہ کیا جا سکے۔‘چین کے بانی رہنما ماؤ نے فیصلہ کیا کہ ان کا ملک چڑیوں کے بغیر رہ سکتا ہے۔ بہت سی دوسری پالیسیوں کی طرح اس فیصلے کا اثر اس قدر وسیع ہوا کہ تباہی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
‘چڑیا کو اپنے گھونسلے میں آرام کرنا پڑتا ہے۔ اڑنے اور خوراک کی تلاش اس پرندے کے لیے بہت تھکا دینے والی ہوتی ہے۔پلاٹ کے مطابق اس دور میں چڑیا کو اتنے بڑے پیمانے پر مارا گیا کہ ایسی کہانیاں ہیں کہ لوگ مردہ پرندوں کو بیلچوں سے اٹھا کر پھینک دیتے تھے۔ دو سال کے اندر، یہ نسل، جو چین میں سب سے زیادہ پائی جاتی تھی، معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی۔ٹوڈ بتاتے ہیں کہ چڑیوں کے خلاف استعمال ہونے والے طریقے اتنے درست نہیں تھے کہ انھیں اسی نوع تک محدود رکھا جا سکے۔لوگوں کے ہجوم نے گھونسلے توڑ دیے اور جو بھی چڑیا دیکھی اسے مار ڈالا۔ بیجنگ جیسے شہروں میں لوگ اتنا شور مچاتے تھے کہ پرندے تھک جاتے تھے اور اڑتے ہوئے مر جاتے تھے۔ اس سے نہ صرف چڑیاں بلکہ پرندوں کی دوسری نسلیں بھی متاثر ہوئیں۔چینی حکام کا خیال تھا کہ یہ جاندار چاول اور دیگر فصلوں کو نقصان پہنچا رہے تھے، لہٰذا ان کے خاتمہ کے لئے ملک بھر میں مہم شروع کردی گئی۔اس مہم کے دوران لوگوں نے ان جانداروں کا ہر جگہ تعاقب کیا اور اگرچہ چڑیا کا اس مہم کا نشانہ بننا ایک حیرت انگیز بات تھی ۔لوگوں نے چڑیوں کے گھونسلے تباہ کردئیے، ان کے انڈے توڑ دئیے،
ان کے بچے مار دئیے اور جہاں بھی کوئی چڑیا دانا دنکا چگنے کی کوشش کرتی برتن اور ٹین کے ڈبے بجا کر اسے اڑادیا جاتا۔اس مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے ملک میں بیچاری چڑیا کا نام و نشان ختم ہوگیا -ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ چڑیا کی نسل ختم ہونے سے ان کیڑوں اور حشرات کو کھانے والے پرندے نہ رہے جو کہ اصل میں فصلوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چین میں چاول کی فصل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی جبکہ باقی فصلوں کو بھی کیڑوں اور حشرات نے بے پناہ نقصان پہنچایا اور پورے ملک میں قحط کا سماں پیدا ہوگیا۔ جو تقریباً دو کروڑ لوگوں کی موت کا سبب بنا۔اس قحط کا عذاب نازل ہونے کو چینی تاریخ کی خوفناک ترین آفات میں شمار کیا جاتا کیونکہ چڑیوں کی نسل ختم کرنے کے بعد گندم اور چاول کی پیداوار بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوتی چلی گئی۔ تب ان پر منکشف ہوا کہ یہ چڑیا فصلوں کو کچھ نقصان کے ساتھ بہت سے فائدے بھی پہنچاتی تھی، کیونکہ یہ فصلوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے کیڑوں مکوڑوں کو بھی کھا جاتی تھی۔پھر پورے چین کی فصلوں پر ٹڈی دلوں کے لشکروں نے حملہ کر دیا ۔یاد رہے کہ ٹڈی انتہائ سرعت سے گندم کے زخائرکھا جاتی ہے ٹڈی دل کے حملوں نے پورے چین میں گندم کے ذخائر کو تباہی سے دو چار کیا ۔ٹڈی دل کو کھانے والی چڑیاں گندم کو ٹڈی دلوں کی آفت سے محفوظ رکھتی تھیں۔اس لیئے قدرت کے ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے کے بجائے مذید سدھارنے پر توجہ دیجئے
انسان سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ اللہ کا عذاب کس طرح سے ظالموں کو آ پکڑتا ہے
جواب دیںحذف کریں