جمعہ، 23 اگست، 2024

اب اغوا برائے تاوان کا نام "ہنی ٹریپ" ہے

 


دھوکہ دے کر کسی بھی شخص کو بلا کر اغوا برائے تاوان وصول کرنے  کے  نام کے لئے ہنی ٹریپ کی اصطلاح ایجاد کی گئ ہے-میں نے کئ برس پہلے بہت تفصیل سے ایک بلاگ لکھا تھا -اس بلاگ میں حیدری مارکیٹ کے ایک تاجر اور سادات کالونی ڈرگ روڈ کے ایک بنکار کے اغواپرتفصیل سے روشنی ڈالی تھی حیدری مارکیٹ کے تاجر سے  لفٹ مانگنے والی لڑکی نے اسے اغواکر کے گینگ کے سپرد کیا تشدد کیا گاڑی بھی چھینی اور گھر والوں سے تاوان بھی وصول کیا -اور پولیس جب گرفتار کرنے پہنچی تو کرائے کےگھر  سےگینگ فرار ہوچکا تھا-دوسری واردات میں جوان بنکار موت کے گھاٹ اتارا گیا لاش گاڑی میں موجود تھی اور اغوا کرنے والی لڑکیا ں دبئ میں اس کے کریڈٹ کارڈ سے لاکھوں کی خریداری کر رہی تھیں -پولیس کو ان کا کوئ سراغ نہیں ملا -اور اب ہمارے معروف خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ بھی یہی کچھ پیش آیا ہے'آگے بی بی سی کی ایک رپورٹ بھی پڑھئے ساجد علی کے موبائل کی گھنٹی بجی اور  زنانہ آواز میں بات کا آغاز ہوا اور تاثر دیا گیا جیسے یہ رانگ نمبر ہے۔ بعد میں اسی نمبر سے روزانہ کالز آنے لگیں اور گھنٹوں بات چیت ہونے لگی۔

چندہ ماہ میں اس رومانوی کہانی نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا جب ساجد کو کزن کے ساتھ اغوا کر لیا گیا۔شمالی سندھ بالخصوص گھوٹکی، شکارپور اور کشمور کندھ کوٹ میں خواتین کی آواز میں فون کالز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اغوا کی وارداتوں کا رجحان عام ہو چکا ہے، جس میں اب ڈاکو اغوا کی وارداتیں نہیں کرتے بلکہ مغوی خود ڈاکوؤں کے پاس اغوا ہونے کے لیے پہنچ جاتا ہے۔میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل (فرضی نام) سے فون پر رابطہ ہوا تھا، چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا، اور پھر اس نے کہا کہ ’ہم تو اب ایک کنبہ ہیں ہمیں اب ملاقات کرنی چاہیے، لہذا رانوتی ( کچے کا علاقہ) میں آ جاؤ۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اکیلے جانے کے بجائے اپنے کزن کو ساتھ چلنے کو کہا۔‘وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہم متعلقہ جگہ پر پہنچے تو وہاں موٹر سائیکل پر سوار ایک بندہ آیا جس نے کہا کہ مجھے مومل نے بھیجا ہے، میرے پیچھے پیچھے آجاؤ۔ جب وہ پکے سے کچے کے حفاظتی بند پر پہنچے تو وہاں چار لوگ اور آگئے جن کے پاس کلاشنکوف تھیں۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں مارا پیٹا اور پھر اغوا کر لیا۔‘ساجد علی نے بتایا کہ ’اغوا کے دوران راستے میں پانی کا ایک تالاب آیا، اس کو عبور کروایا گیا اور ایک جگہ ہمیں بٹھا دیا گیا اور دھمکی دی کہ ایک کروڑ روپے تاوان لیں گے ورنہ گردن کاٹ کر پھینک دیں گے۔‘


وہ بتاتے ہیں کہ ’اسی دوران وہاں پولیس پہنچ گئی آدھا گھنٹہ مقابلہ جاری رہا ہے جس کے بعد ڈاکو لڑتے لڑتے وہاں سے فرار ہو گئے۔‘ہنی ٹریپ: خاتون کی آواز میں جھانسہ-ساجد علی -میرپور ماتھیلو میں ساجد علی سے جب ملاقات ہوئی تو وہ نویں جماعت کا امتحان دے کر واپس آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا چند ماہ پہلے مومل (فرضی نام) سے فون پر رابطہ ہوا تھا اور چند ماہ تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہاٹیلی کام اور انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد ڈاکو بھی اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ، جو شمالی سندھ میں بطور ایس ایس پی فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ سندھ میں گھوٹکی ضلع سے خواتین کی آواز میں بات کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو بعد میں شکارپور اور کشمور اضلاع تک پہنچ گیا۔بقول ان کے اس کی ابتدا گھوٹکی کے کوش قبیلے کے جرائم سے وابستہ ڈاکوؤں نے کی تھی جو خود خواتین کی آواز میں بات کرتے تھے۔ایس ایچ او انسپکٹر عبدالشکور لاکھو کہتے ہیں کہ ’فون پر بات کرنے کے لیے ڈاکوؤں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں آنے کے لیے آمادہ کر لیتی ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکوؤں نے کچھ خواتین پنجاب سے منگوائی ہیں، کچھ انھوں نے اپنی عورتیں رکھی ہوئی ہیں۔

 فرض کریں اگر کوئی سندھی بولنے والا رابطے میں آئے گا تو سندھی میں عورت بات کرے گی، کوئی اردو بولنے والا آ گیا تو اردو میں بات کرے گی، پشتو والا آگیا تو پشتو زبان والی عورت بات کرے گی۔‘پولیس کے مطابق ڈاکوؤں کے ’ہنی ٹریپ‘ کا شکار بننے والے افراد اپنی گاڑی، مسافر کوچ یا ہائی ایس میں آتے ہیں، پھر ڈاکوؤں کا سہولت کار ان کو موٹر سائیکل پر لینے پہنچ جاتا ہے اور انھیں بتاتا ہے کہ ’میڈم نے بھیجا ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہیں۔‘اس دوران کسی ناکے پر پولیس کی چیکنگ چل رہی ہو تو بھی پولیس کو یہ شبہ تک نہیں ہوتا کہ متاثرہ شخص موٹر سائیکل سوار کا رشتہ دار، دوست ہے یا مغوی۔وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر واقعات میں متاثرہ شخص خود موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جاتا ہے کیونکہ مغوی کو پتہ نہیں ہوتا ہے کہ آگے جا کر وہ اغوا ہو جائے گا۔

 محمد علی اب لنگڑا کر چلتے ہیں۔ ڈاکوؤں نے ان کی ٹانگوں پر گولیاں مار کر انھیں چھوڑ دیا تھا، وہ بھی ایک فون کال پر کزن میانداد کے ہمراہ ڈاکوؤں کے نرغے میں آگئے تھےکاروبار اور کام کاج کا جھانسہ  -،وہ بتاتے ہیں کہ وہ الیکٹریشن ہیں اور انھیں ڈاکوؤں نے کام کاج کا جھانسہ دے کر اپنے چنگل میں پھانسہ تھا۔ ’ڈاکؤوں نے فون کر کے کہا کہ چار کمروں کی الیکٹریکل وائرنگ کا کام ہے۔ آ کر دیکھ لو۔‘محمد علی کہتے ہیں کہ جب وہ نہیں گئے تو بار بار فون کالز آنے لگیں۔’ایک دن میرا کزن، جو موٹر سائیکلوں کا کام جانتا ہے، کو میں نے ساتھ لیا اور سعید پور اڈے پر پہنچ گئے جہاں موٹر سائیکل سوار لوگ آئے اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔‘وہ انھیں سی پیک روڈ سے کچے میں لے آئے اور ایک جگہ پر انھوں نے محمد علی اور ان کے کزن کو اغوا کر لیا اور انھیں درخت کے ساتھ باندھ دیا۔محمد علی اپنے اس تلخ تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ڈاکوؤں  ہماری رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا، جب انھیں بتایا کہ ہم غریب لوگ ہیں تو انھوں نے ہماری ایک نہ مانی اور ایک روز ٹانگ پر گولی مار کر ویرانے میں پھینک دیا اور فون پر گھر والوں سے کہا کہ ہمیں اٹھا کر لے جائیں۔‘اس واقعے کے بعد ان کے رشتے داروں نے پانچ لاکھ روپے تاوان ادا کر کے کزن میانداد کو رہا کروایا۔محمد علی کا علاج رحیم یار خان سے کروایا گیا لیکن وہ مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے اور عمر بھر کے لیے ایک ٹانگ سے معذور ہو گۓ

1 تبصرہ:

  1. اللہ سب پر اپنا فضل و کرم رکھے آمین-لیکن ہوش و خرد کا دامن تھام کر چلنے میں بھلا ئ ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر