جمعہ، 16 ستمبر، 2022

نیلامی کے بازا رمیں

 
کافی عرصے پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس میں مصر کے ایک گنجان آباد شہر میں لگنے والے بازار کے بارے میں پڑھا تھا جس کے لئے مہینے کا ایک خاص دن مقرّر کیا جاتا تھا اس دن صبح ،صبح شہر کے لوگ اپنے اپنے نوخیز جگر کے ٹکڑے لے لے آکر آتے اور ان کو بازار لگتے وقت شاہراہ کے دونوں جانب لے کر کھڑے ہوجاتے اور پھر خریدارو ں کا اژ دہام اس شاہراہ میں داخل ہوتا اور پسندیدہ بچّے کو بہ حیثیت زر خریدغلام لے کر اس کے وارث کو دام چکا کر اپنی راہ لیتا حضرت یوسف علیہ السّلا م بھی اسی بازار میں عزیز مصر کے ہاتھوں فرخت کئےگئے تھے۔  مجھے نہیں معلوم کہ اس دور میں ان فروخت شدہ غلامون کے ساتھ ان کے مالکان کیا سلوک کرتے ہو ں گے، اور پھرفروخت ہونے کے بعد ان معصوم بچّوں اور قدرے نو جوان لڑکوں کو واپس اپنے گھروں کی شکل دیکھنی نصیب نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ فروخت شدہ غلام اپنے زرخرید آقاؤں کے ہمراہ اکثر دور دراز کے ملکوں کو چلے جاتے تھے ،پھر ان کے آقا ہی ان کی موت و زیست کے مالک ہوتے تھے مجھےنہیں معلوم کہ وہ بد نصیب غلا م کتنے فیصد جیتے تھے اور کتنے ہی اپنے آقاؤں کے ہاتھوں آج کے پاکستان کے معصوم فروخت شدہ غلاموں کی طرح بچپن کی معصوم عمر کی کسی چھوٹی سی خطا یا بے خطا ہی بہیمانہ طریقے سے مار ڈالے جاتے ہون گے یا زمین کا گڑھا کھود کر زندہ دفن کردیے جاتے ہوں گے 

۔ اس معاملے میں پاکستان کے وہ عوام بڑے ہی کم نصیب ہیں جو علم کی روشنی سے محروم ہیں اور یہ محرومی جان بوجھ کر رکھّی گئ ہے تاکہ پاکستان کی اشرافیہ کو غلام ابن غلاموں کی کبھی تنگی کا سامنا نا کرنا پڑے ،بالخصوص صوبہ پنجاب کا سرائیکی پٹّی کا حصّہ ،ایک طرف تعلیم میں ان کی حصّے داری آٹے میں نمک کے برابر دوسری جانب ان کے اپنے گھروں مین یہ تصوّر کہ بچّے ان کی کما ئ کا زریعہ ہیں اس لئے جتنے بھی ہو جائین وہ اس کو رب کی رضا سمجھ کر خاموش رہتے ہیں اور بہت ننھّی ننھّی عمروں میں شہر کے امیروں کے پاس فرخت شدہ غلاموں کی طرح بھیج دئے جاتے ہیں (عام طور پر جو میں نے خود مشاہدہ کیا

 ان معصوم پھولوں کولڑکے اور لڑکی کی تخصیص کے بغیر چھ یا سات برس کی عمر میں اپنے گھر سے دور جانا ہوتا ہے )ان بچّوں کے عوض ان کے والدین کو ماہانہ ایک مخصوص رقم دی جاتی ہے یہ رقم بہت بڑی نہیں ہوتی ہئے بس دو ہزار یا ڈھائ ہزار اور اس رقم کے عوض وہ بچّے زندگی کی تمام رعنائیوں سے دور اپنے گھر والوں کے لئے دوزخ کا ایندھن بن کر کام کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی سہواً خطائیں ہوجانے پر بہیمانہ سزائیں جھیلتے ہیں ۔ اکثر یہ سزائیں ان کے لئے موت کا پروانہ بھی ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ ابھی حال ہی میں ایک دس برس کی ننھّی کلی ناصرہ کو اس کی مالکن نے کچھ پیسے چوری ہوجانے پر دودن تک کمرے میں بھوکا پیاسا باندھ کر رکھّا اور اتنا مارا کہ وہ ننھی کلی جان کی بازی ہار گئ مالکن گرفتار تو ہوئ ہے لیکن یہاں پیسہ بولتا ہے اس لئے یقین ہے کہ بہت جلد آزاد ہو گی۔ ناصرہ کی موت کے ساتھ ہی اگلے ہی دن کے اخبار میں کراچی کے پوش علاقے کی ایک اور دس برس کے معصوم بچّے کی شدید زخمی حالت میں تصویر منظر عام پر آگئ ،اس بچّے کو اس کے ڈاکٹر مالک نے اپنے بنگلے کی بالائ منزل سے پھینک کر سزا دی جس سے وہ بچّہ شدید زخمی ہوکر اب ہاسپٹل مین موت و زیست کی جنگ لڑ رہا ہے ،
کیا کوئ چارہ گر ہے ،کیا اس ظالم معاشرے کے لئےکیا کوئ مسیحا ہے .

 اس سے پہلے بھی تواتر کے ساتھ یہ تمام کہانیا ں دہرائ جاتی رہی ہیں ۔ اور ظالم بے حس عیّاش باشاہوں کی تسکین کی خاطر اونٹوں کی دوڑ میں شریک کرنے لئے غریب والدین ان کو خود سے فروخت کے لئے پیش کرتے تھے جہاں ان کو دن بحر میں انتہائ قلیل خوراک اور محدود پانی دیا جاتا تھا تاکہ اونٹ پر ان کا وزن کم سے کم ہو اور اونٹ تیز تر دوڑ کردوڑ کی بازی جیت سکے ان میں سے کئ بچّے اونٹوں کی دوڑ میں جان کی بازی بھی ہار گئے اور کئ بچّے تاعمر معذور ہو گئے ان کی عمریں چار سال سے شروع ہو کر بہت سے بہت آٹھ سال ہوتی تھیں،،وائے بد بخت انسانوں اب اس مکروہ اور ظالمانہ کھیل میں پاکستانی بچّوں کاجانا ممنوع ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ گھروں میں نوعمر و نوخیز بچیّو ں کے ساتھ جنسی جرائم کا بھی ارتکاب کیاجاتا ہے۔ اب گھریلوملازمین کی ناگفتہ بہ صورتحال سے ہٹ کرزرا اپنے وطن میں چائلڈ لیبر انڈسٹری پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں۔ پاکستان کے اندرٹیکسٹائل ہوم انڈسٹری کا اور قالین بافی کی صنعت کا ایک مظبوط ستون چائلڈ لیبر ہے اور وہاں بھی یہی معصوم فرشتے ہزاروں کی تعداد میں کام کرتے نظر آتے ہیں،،سرمایہ دار مالکان ان کی یومیہ اجرت بھی بہت کم رکھتے ہیں، ان کے زخمی ہونے کی صورت میں کوئ علاج معالجہ بھی نہیں کیا جاتا ہے، ان دونون صنعتوں میں یہ بچّے انتہائ نا مساعد حالات میں انتہائ قلیل اجرت پراور کام کئے جاتے ہیں ،ان بچّوں میں سانس کی بیماریاں عام ہوتی ہیں،، اور ننھی ننھی عمروں میں آٹو ورکشاپس پر کام کرتے ہوئے ،،شام کو 
پھولوں کے ہار لے کر ایک ایک گاڑی والے کی خوشامد کرتے ہوئے سبزی بازار میں بھاری بوجھ اٹھاتے ہوئے یہ پاکستان کے ننھے پھول ہیں انکی آبیاری حکومت پر فرض ہے ,

,,,اسوقت حکومت کے لئے یہ چیلنج ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرانے کے لیئے فوری اورعملی اقدامات اٹھاتے ہوئے غریب گھرانوں کے بچوں کے لئے مفت تعلیم کے حصول کے لیئے سکولز کا قیام عمل میں لایا جائے،جہاں نہ صرف مفت تعلیم بلکہ ان بچوں کو ماہانہ وظا یف بھی دیئے جائیں تاکہ غربت کی زنجیروں میں جکڑے ان بچوں کے والدین انہیں تعلیم کے بجائے کام کاج پر مجبور نہ کریں،اور نئی نسل کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے۔ اگرحکومت مخلص ہوتو ان معصومون کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہے لیکن جہاں اپنا سرمایہ یور پ کے بنکوں میں رکھنے کی ہوس طاری ہو وہاں کوئ کچھ نہیں کر سکتا ہے اگر حکومت وقت چاہے تو سرمایہ دار مجبوراً کچھ ایسے اقدامات ضرور کر سکتے ہیں جن کے زریعے ان معصوموں کی لکھنے پڑھنے کی عمر میں محنت و مشقّت نا کرنی پڑے

 اس کے علاوہ ان محنت کش معصوم بچوں کے والدین کو روزگار دینے کا بندوبست خود حکومت کر ے۔ انٹر نیشنل لیبر آر گنائزیشن کا کہنا ہے کہ ( آئی ایل او) تمام دنیا میں اس وقت قریب قریب بیس لاکھ بچے انتہائی خطرناک صنعتی ماحول میں کام کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر چائلڈ لیبر فورس میں کمی جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں اضافہ ہوا جبکہ تمام دنیا میں بائس ہزار بچّے سالانہ دوران مشقت ہلاک ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی مشقت کے حوا لے سے جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل کے مطابق دنیا میں پانچ سے سے چودہ برس کی عمر کےسولہ کروڑ پچاس لاکھ بچے اسکول کے بجائے محنت ومشقت کرنے پر مجبور ہیں اور سات کروڑ تیس لاکھ بچے ایسے بھی ہیں جو دس برس سے کم عمر ہونے کے باو جود چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں۔ دنیا میں پانچ سے ستّرہ برس کی عمر کے کئ کروڑ بچے چائلڈ لیبر فورس کا حصہ ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کل چا ئلڈ فورس کا 93/ فیصد کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے ہے اور کان کنی جیسے سخت ترین پیشے سے بھی کئ لاکھ بچّے اپنا رزق حلال کما رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دنیا میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے اتنے سخت قوانین بنائے جایئں کہ کوئ سرمائہ دار ان معصومون کا جسمانی اور معاشی استحصال نا کر سکے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر