بدھ مت تہذیب کے انمول شاہ کار، اجنتا کے صدیوں پرانے غار
بُدھ مت کا بانی سدھارتھا گوتم قریباً
600 سال قبل از مسیح میں نیپال کے شاہی گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ جیسا کہ اُسکی
کہانی بیان کرتی ہے وہ کسی حد تک بیرونی دُنیا سے انجان عیش و عشرت بھری زندگی بسر
کررہا تھا ۔ اُس کے والدین کا مقصد اُسے مذہب کے اثر سے بچانا اور اُسے دکھ اور مصیبت
سے محفوظ رکھنا تھا۔ تاہم زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اُس کی آرام گاہ میں چھید ہو
گیا اور اُس نے ایک عمر رسیدہ شخص، ایک بیمار شخص اور ایک لاش کے مناظر دیکھے ۔
چوتھے منظر میں اُس نے ایک پُرامن صوفی درویش(جو عیش و عشرت اور آرام دہ زندگی کو
چھوڑ دیتا ہے) کو دیکھا ۔ درویش کی پُر امن حالت کو دیکھا کر اُس نے بھی درویش
بننے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے خودضبطی/ نفس کشی کے عمل کے وسیلے سے روشن خیالی کی
تلاش کے لئےمال ودولت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ خودضبطی/ نفس کشی اور گیان
دھیان کرنے کی مشق میں ترقی کرتا گیا ۔ وہ اپنے ساتھیوں کا رہنما تھا۔ آخر کار اُس
کی تلاش ایک خاص نکتے پر جا کر اختتام پذیر ہوگئی۔ ایک دن اُس نے ایک پیالہ چاول
کھائے اور اس ارادے سے گیان دھیان کرنے کےلیے انجیر کے درخت(جسے بودھی درخت /مقدس
درخت بھی کہا جاتا ہے)کے نیچے بیٹھ گیا کہ یا تو وہ اِس دھیان و گیان کی مشق کی
بدولت" روشن خیالی " پا لے گا یا گیان دھیان کرتے کرتے مر جائے گا۔ اپنی
تکلیفوں اور کئی ایک آزمائشوں کے باوجود اگلی صبح تک اس نے روشن خیالی حاصل کرلی ۔
اور اجنٹا کے غاروں میں بدھ مت کی پیدائش لے کر ان کے نروان تک کی تہذیب کو سمویا
گیا ہے-اجنتا دراصل
ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا
ہے۔یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا بے پناہ خوبصورت نمونہ ہیں۔
محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی
میں تراشے گئے تھے۔
اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی
شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔
اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں،
جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔اورنگ
آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ
رکھتے ہیں۔بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود
ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ایک
زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر
کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔
کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا
ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے
پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی
جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار
کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔
ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت
پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر
ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے
کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔اس دور
کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت
اعلیٰ درجے کی تھی۔
ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا
بھکشو، ستونوں پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات
پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔اجنتا کے غار اورنگ آباد سے
ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا
پڑتا ہے۔اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور
ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ
انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم
اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے
راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔
1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک
کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی
شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں