جمعہ، 12 مئی، 2023

شاھ عبد اللطیف بھٹائی

 سندھ میں اولیائے کرام کی آمد جاری تھی انہی دنوں ایک عالی نسب سیّد زادے حبیب شاہ نے بھی سندھی کی پاکیزہ دھرتی پر قدم رکھے اور ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں اقامت گزیں ہوگئےشاھ عبد اللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء، 1101ھ میں ہوئ۔۔ اور موصوف کا شمار اس علاقے کی برگزیدہ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔ ہستیوں میں تھا۔برصغیر کے عظیم صوفی شاعر تھے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور ا کے رسول صلی اللہ علیہ وبرّآلہ وسلم کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایاشاہ صاحب کی پیدائش کے متعلق مشہور ہے کہ سید حبیب شاہ نے یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں لیکن اولاد سے محروم رہے۔ آپ نے اپنی اس محرومی کا ذکر ایک درویش کامل سے کیا، جن کا اسم گرامی عبداللطیف بتایا جاتا ہے۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ انشاء اللہ آپ کی مراد بر آئے گی۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنے بیٹے کا نام میرے نام پر عبد اللطیف رکھیں۔ خدا نے چاہا تو وہ اپنی خصوصیات کے لحاظ سے یکتائے روزگار ہو گا۔

سید حبیب شاہ کی پہلی بیوی سے ایک بچہ پیدا ہوا۔ درویش کی خواہش کے مطابق اس کا نام عبد اللطیف رکھا گیا۔ لیکن وہ بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔ پھر اسی بیوی سے جب دوسرا لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام پھر عبد اللطیف رکھا گیا۔ یہی لڑکا آگے چل کر درویش کی پیشین گوئی کے مطابق واقِعی یگانہ روزگار ہوا۔شاہ عبد اللطیف بھٹائی کےآباؤ اجداد سادات کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب علی المرتضی اور رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچتا ہے۔امیر تیمور کے زمانے میں ہرات کے ایک بزرگ سید میر علی بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ اور آپ کا شمار اس علاقے کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ 1398، -801ھ میں جب امیر تیمور ہرات آیا، تو سید صاحب نے اس کی اس کے ساتھیوں کی بڑی خاطر و تواضع کی، ساتھ ہی بڑی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔

تیمور اس حسن سلوک سے متاثر ہوا۔ سید صاحب اور ان کے دو بیٹوں میر ابوبکر اور حیدرشاہ کو مصاحبین خاص میں شامل کر کے ہندوستان لے آیا۔ یہاں آنے کےبعد میر ابوبکر کو سندھ کے علاقے سیہون کا حاکم مقرر کیا۔ اور سید میر علی اور حیدر شاہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ بعد کو سید حیدر شاہ بھی اپنے والد بزرگوار اور تیمور کی اجازت سے گھومتے پھرتے مستقل طور پر سندھ میں آ گئے اور ہالا کے علاقے میں شاہ محمد زمیندار کے مہمان ہوئے۔شاہ محمد نے آپ کی کچھ اس طرح خدمت کی کہ وقتی راہ و رسم پر خلوص محبت میں بدل گئی۔ کچھ دنوں بعد اس نے اپنی لڑکی فاطمہ کی شادی آپ سے کردی۔چونکہ آپ کی ماں کا نام بھی فاطمہ تھا، اس لیے شادی کےبعد اس نام کو سلطانہ سے بدل دیا گیا۔ سید حیدر شاہ قریب قریب تین سال تک ہالا میں رہے پھر اپنے والد کی وفات کی خبر سن کر ہرات گئے جہاں تین چار سال تک رہنے کے بعد وہیں وفات پا گئے۔ کہتے ہیں جب سید صاحب ہرات روانہ ہوئے تو آپ کی اہلیہ حاملہ تھیں انہوں نے چلتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ اگر میری عدم موجودگی میں بچہ پیدا ہوا تو لڑکا ہونے کی صورت میں اس کا نام میر علی اور لڑکی ہو تو فاطمہ رکھا جائے۔ چنانچہ لڑکا پیدا ہوا اور وصیت کے مطابق اس کا نام میر علی رکھاگیا۔ میر علی کے خاندان میں بڑے بڑے صاحب کمال بزرگ پیدا ہوئے، ان بزرگوں میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے علاوہ، شاہ عبد الکریم بلڑی وارو، سیدہاشم اور سید جلال خاص طور پر قابل ذکر ہیں

شاہ عبد الطیف بھٹائی کو "ست سورمیون کا شاعر" بھی کہا جاتا ہے۔وہ یورپی زبانوں کے ساتھ ساتھ سندھی ،پنجابی،بروہی اور پشتو زبانوںپر بھی عبور رکھتا تھا۔ جوگیوںاور گائیکوں کی آواز میں گایا جانے والا شاہ لطیف کا کلام اس پر سحر طاری کردیتا تھا۔ حیدر آباد میںقیام کے دوران اس نے گنج شاہ لطیف کی نقل تیار کی اورریٹائرمنٹکے بعد جرمنی لے جا کر لیپزگ Leipzig سے شائع کرواکےاسے ’’شاہ کے پیغام‘‘ کانام دیا ۔بعض بنیادی نقائص کے باوجود یہ نسخہ سندھی دانشوروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔اس کی اشاعت کے فوری بعدعلامہ آئی آئی قاضی کی جرمن اہلیہ، ایلسا قاضی نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کرایا۔شاہ لطیف کے مجموعہ کلام کی جرمنی میں اشاعت کے بعد ہی پوری دنیا پر یہ آشکار ہوا کہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ وہ عظیم ادبی شاہ کار ہے جسے دنیائے ادب میں بجاطور پر پیش کیا

 جا سکتا ہے۔ اس کا ایک قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں بھی محفوظ ہے۔شاہ جو رسالو کا سندھی سےاردو ترجمہ ،معروف شاعر شیخ ایاز نے کیا، اور اس کام میں ان کی معاونت پروفیسر آفاق صدیقی نے کی۔اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے شاہ عبداللطیف بھٹائی اور تصوف کے حوالے سے لکھی جانے والی بہترین کتابوں پرشاہ عبداللطیف بھٹائی تصوف ایوارڈکا اجراء کیا گیا ۔شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سماع‘‘ کے بے حد شوقین تھے۔ برصغیر کی کی گائیکی کے انداز سے پوری طرح آشناتھے۔ گائیکی کے سروں کے آپ نے مختلف نام رکھے تھے، یہ سُر (آواز) داستانوں میں بٹے ہوئے ہیں، اور ہر داستان کے پیچھے ’’وائی‘‘ ہے جوکہ عبداللطیف کی اپنی ایجاد ہے، اس کی ہیئت غزل سے ملتی جلتی ہے۔ ’’سُر حسینی‘‘ میں سسّی کی دردناک صدائیں سنائی دیتی ہیں، اسی طرح شاہ صاحب نے ماروی کو دیس کی محبت کی علامت کے طور پر نمایاں کیا ہے

شاہ بھٹائی جس ٹیلے پربیٹھ کریاد الٰہی میں مشغول رہتے اور اپنا صوفیانہ کلام مرتب کرتے تھے اس کے نزدیک ایک نہر بھی بہتی تھی،کمالِ فن دیکھئے کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے اُس کے پانی کا شور یا آوازیں سُن کر موسیقی کے سُر دریافت کیے اور ایک آلہ موسیقی ایجاد کیا جسے ’’ طنبور‘‘ کہا جاتا ہے۔ان کا کلام گائیک یا جوگی صرف طنبورے پر ہی گاتے ہیں، اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا موسیقی کا آلہ استعمال نہیں کیا جاتا۔شاہ صاحب کا کلام سلیس و بلیغ انداز میں بیان کیا ہوا ہے۔ سندھ کے ہزاروں لوگ شہر، گاؤں اور پہاڑوں میں بسنے والے شاہ جو رسالو کے حافظ ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی شاعری اور موسیقی کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنے کلام سے کئی سر ایجاد کیے اور خود ایک ساز طنبورو بھی ایجاد کیا۔ عام طور پہ طنبورہ چار تاروں کا ہوتا ہے مگر شاہ صاحب نے ایک اضافی تار لگا کر پانچ تاروں والا طنبورہ بنایا، جس کو خود استعمال کرتے تھے اور اپنے فقیروں کو بھی اس کی تربیت دیتے تھے۔ ان کے پاس گوالیار سے کلاسیکل فنکار اٹل اور چنچل بھی لمبا سفر طے کر کے راگ سمجھنے آئے تھے۔ اکثر رات کے اوقات میں محفل سماع کرواتے تھے۔

شاہ صاحب کے زمانے میں سندھ کے حکمران خود پیر و مرشد کی گدی والے، عباسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جن کے ہزاروں مرید شاہ لطیف کے عقیدت مند بن گئے۔ یہ بات ان کو بہت بری لگی اور شاہ لطیف سے عداوت کرنے لگ گئے۔ اس حوالے سے والیٔ سندھ میاں نور محمد کلہوڑو نے شاہ لطیف کو بار بار مارنے کی سازشیں بھی کیں۔ شاہ صاحب سیاست نہیں کرتے تھے البتہ اپنے کلام کے ذریعے انہوں نے حاکموں، ظالموں اور حملہ آوروں کے خلاف مزاحمتی انداز میں آواز بلند کی ہے۔ سر مارئی میں ان کا یہ انداز واضح نظر آتا ہے، وہ فرماتے ہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا پیغام فقط ایک خطے کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ ان کی دعا سندھ کو سرسبز و شاداب کرنے کے ساتھ پورے عالم کو آباد کرنے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :”اے میرے مولا، میرے وطن سندھ، کو ہمیشہ خوشحال رکھ،اور سندھ کے ساتھ پوری دنیا کو بھی آباد رکھ۔ ”

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 14 صفر 1165 ہجری بمطابق 1752 عیسوی میں وفات پائی، آپ کی وصیت کے مطابق آپؒ کی بھٹ شاہ میں ہی تدفین کی گئ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر