پیر، 8 مئی، 2023

حضرت مولانا جلال الدین رومی

 

 

 

-مولانا جلاالدّین رومی وہ شاعر اور  صوفی بزرگ ہیں جن کی شاعری آج بھی یورپ میں مقبول عام ہے -اور ان کی مثنوی کو زندہ ء جاوید شاعری کہا جاتا ہےدینی خدمات آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تدریس اور فتاویٰ کے ذریعے اُمّت کی راہنمائی فرمائی نیز کئی کُتُب بھی تصنیف فرمائیں جن میں ”مَثْنَوی مولانا  روم کو عالَم گیر شہرت حاصل سلسلہ باطنی۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔

 یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔-ہے اس عظیمُ الشّان کتاب سے اِسْتِفادَہ انسان کو بااَخلاق بننے، نیکیاں کرنے اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچنے میں بے حد معاوِن و مددگار ہے

ہم نظریات فارسی ادب، صوفی رقص کارہائے نماياں مثنوی، دیوان شمس تبریزی، فیہ ما فیہ -محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز(یہ اصل میں مولانا کا ہی دیوان ہے لیکن اشعار میں زیادہ تر شمس تبریز کا نام آتا ہے اس لیے اسے انھی کا دیوان سمجھا جاتا ہے) ان کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازوال تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، ان کا مکان پیدائش ایران میں ہے اور ان کا مزار ترکی میں واقع ہے۔-مکتب فکر حنفی، تصوف؛ انکے پیروکاروں نے سلسلہ مولویہ قائم کیا۔

پیدائش اور نام و نسب-اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔ لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ روایت ہے کہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔

ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاولدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا۔ شعبۂ عمل عارفانہ کلام، صوفی رقص، مراقبہ، ذکر-ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں

 علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصانیف میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔

تقریباً 66 سال کی زندگی  گزار کر 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔ مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا رھتا ھےاور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔ حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ھوتے رھیں گے۔ ترکی کے اسی خوبصورت ودلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک خوبصورت ودلکش اور ڈیزائن کا حامل ہے

آخری وصیت مولانا جلالُ الدّین رومی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے آخری وصیت  یہ فرمائی : میں تم کو وصیت کرتا ہوں  کہ اللہ پاک سےظاہرو باطن  میں ڈرتے رہو،کھانا تھوڑا کھاؤ،کم سو، گفتگو کم کرو، گناہ چھوڑ دو، ہمیشہ روزے سے رہو،رات  کا قیام کرو، خواہشات کو چھوڑ دو،لوگوں  کا ظلم  برداشت کرو  ، کمینوں اور عام لوگوں کی مجلس  ترک کردو،نیک بختوں اور بزرگوں کی صحبت میں رہو بہتر وہ شخص ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے ۔بہتر کلام  وہ ہے  کہ جو تھوڑا اور بامعنی ہو۔ (نفحات الانس،ص488)

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر