اس طرح یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس کے مطالعہ سے ماضی کے بہت سارے پہلو واشگاف ہوجاتے ہیں، اوربہت سی ایسی نئی باتیں علم میں آتی ہیں جو اَب تک پردۂ خفا میں تھیں۔جیسے منشی پریم چند کے بارے میں تحریر کیا ہے :مشہور ادیب ،عیدگاہ اور گودان جیسے بے مثل وشاہکار (افسانے) لکھنے والے منشی پریم چند نےبھی شہر بہرائچ کو اپنی رہائش کا شرف بخشا ہے ۔ منشی پریم چند کی پیدائش 3/جولائی 1880 ء کوہوئی ۔آپ صرف 20 سال کی عمر میں ٹیچر کے عہدے پر فائز ہو گئے تھے -اس دوران 2/جولائی 1900ء میں آپ کا ٹرانسفر بہرائچ کے گورنمنٹ انٹر کالج میں 20رو پے ماہانہ پر ہوا ، جہاں پرآپ نے تین ماہ تک بطور ٹیچر کے تعلیمی خدمات انجام دی اور یہیں بہرائچ میں ہی اپنے ناول ”اسرار ِ معابد“ کی شروعات کی تھی ۔“ (ص47)زیر نظر کتاب نہایت جامع اوربہت ساری کتابوں کا لب لباب ہے ،اور حشووزوائد اور فضولیات سے پاک بھی ہے۔کتاب کا سرورق جاذبِ نظر اورخوب صورت ہے۔496 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ قومی کونسل برائے فروغ ِ اُردوزبان حکومت ہند کے مالی تعاون سے طبع ہوئی ہے ۔کتاب کا شرف ِ انتساب بہرائچ کے مرحوم استاذ الشعرا اظہار وارثی کے نام ہے ، اس کے اگلے صفحہ پر سابق چیئر مین قومی اقلیتی کمیشن حکومت ہندپروفیسر طاہر محمود کا درج ِ ذیل شعر ہے ؎
ہے علم و فن کی روایات کا امیں یہ شہر
ادب نواز ہے کیسی ہوائے بہرائچ
اس کے بعد چھ صفحات پر مشتمل پوری کتاب کی فہرست ہے ،پھر دعائیہ کلمات ،کلمات ِ تبریک اورپیش ِ لفظ کے بعد پروفیسر سراج اجملی(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کی تحریر بعنوان ”بہرائچ کے بارے میں ایک اہم کتاب “شامل ِکتاب ہے ۔بعد ازاں منظوم تأثرات ،اظہارِ تشکر ،حرفِ چند،حرف ِ آغاز ، دو تبصرے ،ایک خط پیش کیا گیا ہے ۔ پھر صاحب ِ کتاب جنید احمد نورؔ نے ”اپنی بات “کے عنوان سے گویاکتاب کا مقدمہ تحریر کیا ہے اوراُسے بہرائچ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک لائق و فائق شاعرجناب راشد راہی ؔکے مندرجہ ذیل شعر پر ختم کیاہے؎اپنے اسلاف کی توقیر بتانے کے لیےمیں نے اس شہر کی تاریخ مرتب کی ہےاس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے ،اور” بہرائچ کاادب میں مقام“سے معنون ایک تحریر میں بہرائچ کے علمی ،روحانی اورادبی پس منظر کو بڑے خوب صورت انداز ِ بیان اوردلکش پیرایے میں پیش کرکےضلع بہرائچ سے تعلق رکھنے والے 106 شعرا،ادبا اور اہل ِ علم دانشوروں کا تفصیلی تذکرہ مع کلام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ درج کیا ہے ۔اِس سے قبل جنید احمد نورؔ دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل پہلا حصہ بنام ”بہرائچ ایک تاریخی شہر “ تالیف کر چکے ہیں ؛جس میں ضلع بہرائچ کی اہمیت، مکمل تعارف اور تاریخ،یہاںکی زبان ، تعلیم ، یہاں کی ندیوں اور جھیلوںوغیرہ کا ذکر کرنے کے ساتھ بزرگان ِ دین، شہداے اسلام ، اولیاے کاملین ،علماء کرام ، صلحا ء عظام اور مشہور سیاسی شخصیات کا تذکرہ وحالات مختلف عنوان سے مفصل انداز میں پیش کرنے کے ساتھ تاریخی حقائق، اسرار ورموز، نکات اور باریکیوں کو بڑے ہی واضح انداز میں قارئین کی خدمت میں پیش کیاہے ۔
اس طرح جنید احمد نورؔ نےتصنیفی وتالیفیدنیامیں بہت کم عرصہ میں اپنی منفردشناخت بنائی ہے _، یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں کئی ممتاز شاعروںاور ادیبوں نے ان کے کام کوسراہا اور خراج ِ تحسین پیش کیا ہے ۔بندۂ ناچیز بھی موصوف کےاس ادبی اور تاریخی پیشکش پر تہِ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہوئےدعاگوہےکہ اللہ تعالیٰ ان کے قلم کواور زوروتوانائی عطا فرمائے۔آمین-آب و ہوالکھنؤ کی آب و ہوا مرطوب ذیلی استوائی ہے، فروری کے وسط نومبر تک خشک سردی، اواخر مارچ سے جون تک موسم خشک گرم ہوتا ہے۔ برسات کا موسم جولائی سے ستمبر کے وسط تک ہوتا ہے۔ موسم سرما میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ° س (77 ° ف) اور کم سے کم 7 ° س (45 ° ف) ہوتا ہے۔ دھند اواخر جنوری سے وسط دسمبر میں بہت عام ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت 45 ° س (113 ° ف) تا 40 ° س (104 ° ف) تک پہنچ جاتا ہےوثقافت -لکھنؤ اپنی وراثت میں ملی ثقافت کو جدید طرز زندگی کے ساتھ بڑی خوبصورتی کے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ بھارت کے اہم شہروں میں گنے جانے والے لکھنؤ کی ثقافت میں جذبات کی گرماہٹ کے ساتھ اعلیٰ احساس اور محبت بھی شامل ہے۔ لکھنؤ کے معاشرے میں نوابوں کے وقت سے ہی پہلے آپ! والا انداز رچا بسا ہے۔
وقت کے ساتھ ہر طرف جدیدیت کا دور دورہ ہے تاہم اب بھی شہر کی آبادی کا ایک حصہ اپنی تہذیب کو سنبھالے ہوئے ہے۔ تہذیب یہاں دو بڑے مذاہب کے لوگوں کو ایک ثقافت سے باندھے ہوئے ہے۔ یہ ثقافت یہاں کے نوابوں کے دور سے چلی آ رہی ہے۔ لکھنوی پان یہاں کی ثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر لکھنؤ نامکمل لگتا ہے۔-زبان اور شاعری -لکھنؤ میں ہندی اور اردو دونوں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن اردو کو یہاں صدیوں سے خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ جب دہلی حالات اچھے نہ رہے تو بہت سے شاعروں نے لکھنؤ کا رخ کیا۔ تب سے اردو شاعری کے دو ٹھکانے ہو گئے، دہلی اور لکھنؤ۔ جبکہ دہلی صوفی شاعری اور لکھنؤ غزل، عیش و آرام اور عشقیہ شاعری کا مرکز بنا۔ نوابوں کے دورے میں اردو کی خصوصی نشو و نما ہوئی اور یہ بھارت کی تہذیب والی زبان کے طور پر ابھری۔ یہاں کے مشہور شاعروں میں حیدرعلی آتش، عامر مینائی، مرزا محمد ہادی رسوا، مصحفی، انشا، صفی لکھنوی، میر تقی میر شامل ہیں۔ لکھنؤ شیعہ ثقافت کے دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ہے۔ میر انیس اور مرزا دبیر اردو مرثیہ گوئی کے لیے مشہور ہیں۔مشہور ہندوستانی رقص کتھک نے یہیں ترقی پائی۔ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کتھک کے بڑے پرستاروں میں سے تھے۔ لکھنؤ مشہور غزل گلوکاہ بیگم اختر کا بھی شہر رہا ہے۔ وہ غزل گائکی میں معروف تھیں اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔
لکھنؤ کی بھاتكھڈے موسیقی یونیورسٹی کا نام یہاں کے عظیم موسیقار پنڈت وشنو نارائن بھاتكھڈے کے نام پر رکھا ہوا ہے۔ سری لنکا، نیپال، بہت سے ایشیائی ممالک اور دنیا بھر سے طالبعلم یہاں رقص اور موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ لکھنؤ نے کئی گلوکار دیے ہیں جن میں سے نوشاد علی، طلعت محمود، انوپ جلوٹا اور بابا سہگل انتہائی اہم ہیں۔ لکھنؤ شہر برطانوی پاپ گلوکار كلف رچرڈ کا جائے پیدائش بھی ہے۔لکھنؤ ہندی فلمی صنعت کا شروع سے ہی مرکز رہا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ لکھنوی رابطے کے بغیر، بالی ووڈ کبھی اس بلندی پر نہیں آ پاتا جہاں وہ اب موجود ہے۔ اودھ سے بہت سکرپٹ مصنف اور نغمہ نگار ہیں، جیسے مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، جاوید اختر، علی رضا، وجاہت مرزا (مدر انڈیا اور گنگا جمنا کے مصنف)، امرت لال ناگر، علی سردار جعفری اور کے پی سکسینہ جنہوں نے بھارتی فلم کو بلندی پر پہنچایا۔ لکھنؤ پر بہت سی مشہور فلمیں بنی ہیں جیسے ششی کپور کی جنون، مظفر علی کی امرا ؤ جان اور گمن، ستیہ جیت رائے کی شطرنج کے کھلاڑی اور اسماعیل مرچنٹ کی شیکسپیئر والا کی بھی جزوی شوٹنگ یہیں ہوئی تھی۔بہو بیگم، محبوب کی مہندی، میرے حضور، چودھویں کا چاند، پاکیزہ، میں میری بیوی اور وہ، سحر، انور اور بہت سی ہندی فلمیں یا تو لکھنؤ میں بنی ہیں یا ان کا پس منظر لکھنؤ کا ہے۔ غدر فلم میں بھی پاکستان کے مناظر لکھنؤ میں فلمائے گئے ہیں۔ اس میں لال پل، لکھنؤ اور لا مارٹينير کالج کے مناظر ہیں۔
اودھ کے علاقے کی اپنی ایک الگ خاص پہچان نوابی پکوان ہیں
جواب دیںحذف کریں