بہرائچ شروع سے ہی علمی ،روحانی اورادبی مرکز ہونے کے ساتھ شعر و ادب کا گہوارہ رہا ہے؛جسےسلطان محمود غزنوی (971ء-1030ء)کے بھانجے حضرت سید سالار مسعود غازیؒ(1015ء- 1033ء) نے اپنے فیوض وبرکات سے نہ صرف مالا مال کیا بلکہ یہاں ہمیشہ کے لیے علم وعمل کی وہ شمع جلائی جس کی روشنی وتابانی سےنہ صرف علاقہ اور ضلع بلکہ ملک کا بیش تر حصہ مستفیض ہورہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ علم وفن ،شعر وادب، تقریر وتحریراورتصنیف وتالیف کے میدان میں بھی سرزمین ِ بہرائچ نے ایسے باکمال شہسوار پیدا کئے ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر بہرائچ کا نام درج کروایا ہے ۔مشہور فلمی شخصیت کیفی اعظمی(1919ء-2002ء) ،ادبی دنیا کو افسانہ نگاری سے روشناس کرانے والے منشی پریم چند (1880ء-1936ء)، اُردو فکشن کے اُفق پر پوری تابانی کے ساتھ چمکنے والی اور اپنے مشہور ِ زمانہ ناول ”آگ کادریا“کے ذریعہ اُردوناول نگاری کوعروج عطاکرنے والی شخصیت قرۃ العین حیدر (1927ء- 2007ء)، معروف ناول نگار عصمت چغتائی (1915ء-1991ء)،ان کے بھائی عظیم بیگ چغتائی (1895ء-1941ء)،1930ء میں لکھنؤ یونیور سٹی میں شعبۂ اُردو کے بنیادگزار سید مسعود حسن رضوی ادیب ؔ (1893ء-1975ء) ، اسلامی تاریخ پر بیش بہا تصانیف کےخالق ومالک قاضی اطہر مبارکپوریؒ (1916ء-1996ء)اورمصباح اللّغات جیسی عربی اُردو لغت کے مصنف مولانا عبدالحفیظ بلیاویؒ(1901ء-1971ء)جیسے اساطین ِ ادب اور قرطاس و قلم سے اپنا رشتہ استوا ر کرنے والے خود بھی بہرائچ سے مستفیدہوئے اور فیضیاب کیا بھی ۔
جن کاشمار لیلاے اُردوادب کے گیسو سنوارنے والوں میں ہوتاہے ۔ ویسے تو بہرائچ کی شعری وادبی تاریخ تین سوسال پر محیط ہے ، جس کا آغازاُردواور فارسی کے مشہور عظیم شاعر ،ایہام گوئی کے سخت مخالف ،اصلاح ِ زبان کےمحرک ، حضرت امیر خسرو ؒ (1253ء-1325ء)، محمدقلی قطب شاہ (1565ء-1612ء)اور ولی دکنی(1667ء-1707ء) کے بعد اُردو شاعری کے چار ستونوں میں سے ایک یعنی حضرت مرزا مظہر جان جانا ں ؒ (1699ء-1781ء)کے تلمیذ ِ خاص،شاگرد ِ رشید اور خلیفۂ و جانشین شاہ نعیم اللہ بہرائچی ؒ(1738ء- 1803ء)سے ہوتاہے ۔بہرائچ ایک تاریخی شہر -بہرائچ کی سرزمین سے شروع ہونے والا اُردوشاعری کےاس سلسلہ کی ایک کڑی ریاست حسین المتخلص بہ شوق بہرائچی ـ(1884ء-19645ء) بھی ہیں جن کے مزاحیہ اور لوگوں کے ہونٹوں پر ہنسی بکھیرنے والے مبنی بر حقیقت اشعار نے جہاں عوام وخواص کو مسکرانے پر مجبور کیا ،وہیں ایوانوں میں بیٹھے مکلّف جوڑوں میں ملبوس لیڈروں پر بھی طنز کیا ہے، جیسا کہ اُن کا ایک بہت ہی مشہور شعر زبان زد ِ عوام وخواص ہے ؎
بربادیٔ گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلّو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھے ہیں انجامِ گلستاں کیا ہوگا
بہرائچ کے اُردو شعروادب کا یہ کارواں اپنی آب و تاب کے ساتھ یوں ہی بڑھتا رہا؛ یہاں تک کہ پورے تین سو سال کا سفر کرتے ہو ئے آج کےدور تک پہنچا۔ اس تین سو سالہ دور میں سرزمین ِ بہرائچ نےاپنی کوکھ سے ا یسے دُرِ نایاب جنم دیے،جنھوں نے ہر سطح پر بہرائچ کا نام روشن کرنے کا فریضہ انجام دیا۔لیکن تاریخ کاایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ وقت کی رفتارنے مذکورہ بالا اہل علم ِوعمل ،ارباب ِ شعر وادب اور اصحاب ِ تصنیف وتالیف کے کارناموں پردبیز پردہ ڈال دیا ،بریں بنا یہ تمام حضرات گمنامی کا شکار ہوکر لوگوں کے دل و دماغ سے تقریباًمٹ گئے تھے۔ اللہ جزاے خیر دے بہرائچ کے ایک ہونہار فرزنداورجواں سال قلم کار جنید احمد نورؔ کو۔جنھوں نے ”بہرائچ ایک تاریخی شہر“بہرائچ اردو ادب میں (حصہ دوم ) تالیف کرکے اپنے شہر بہرائچ کی تین سوسالہ ادبی تاریخ کو 496 صفحات میں قید کرکےایک اہم اورعظیم علمی ،ادبی و تاریخی فریضہ انجام دیا ہے۔جس میں موصوف نے بڑیہی خوش اسلوبی کے ساتھ دلکش انداز میں نہایت جانفشانی اورعرق ریزی سےبہرائچ کے علمی ، روحانی ،ادبی ،شعری اور تصنیفی کام کو انجام دینے والے اشخاص وافرادکے حیات وخدمات اور کارناموں کو تحقیقات و تجربات سے مزیّن کرکےدنیا ے علم وادب کے سامنے پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی تاریخ کے بہت سے مخفی گوشوں سے پردہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔مثلاً ایک مقام پر جنید احمد نورؔ لکھتے ہیں:
”کیفیؔ اعظمی صاحب کا بچپن شہر بہرائچ میں ہی گزرا ہے ۔ کیفیؔ صاحب کے والدصاحب نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ کے نواب قزلباش کے یہاں ملازم تھے ،اور شہر بہرائچ کے محلہ سید واڑہ قاضی پورہ میں رہتے تھے ۔ “ (ص155)دوسری جگہ رقم طراز ہیں:حکیم جوہر ؔصاحب سے وابستہ ایک واقعہ یوں ہے کہ جب پنڈت جواہر لعل نہرو الہ آباد کے نینی جیل میں قید تھے تواُن کی ہدایت کے مطابق جوہرؔ صاحب لنگوٹی باندھے ایک خستہ حال فقیر کی شکل میں جیل سے کچھ فاصلہ پر اپنی گودڑ گھٹری لیے سرِ راہ خیمہ زن رہتے اور راہ گیر چند سکے آپ کے ہاتھوں پر رکھ دیا کرتے تھے مگر کچھ مخصوص کانگریسی کارندے پیسوں کی جگہ دن بھر کی کارروائیوں اور حالات ِ حاضرہ سے متعلق رپورٹ مڑے تڑے کاغذ کی شکل میں آپ کے ہاتھوں میں دبا جایا کرتے تھے جسے جوہر ؔ صاحب دن بھر اپنے پاس گودڑ میں بحفاظت چھپائے رکھتے اوررات کے اندھیرے میں مخصوص ذرائع سے کاغذ کے وہ پُرزے پنڈت نہرو تک پہنچاتے تھے ۔یہ بڑے جان جوکھم کا کام تھا ،مگر مادر ِ وطن ہندوستان کی محبت کے آگے کبھی کوئی آڑے نہیں آیا۔“(ص195،196)
یہ مضمون میں نے انٹر نیٹ سے لیا ہے جزاک اللہ مصنف کے لئے دعاء
بے شک لکھنؤ علم و ادب کا بے مثال شاہکار ہوا کرتا تھا اور اس کی اعلیٰ تہذیب کا اعتراف دیگر ریاستوں کے لوگ کیا کرتے تھے-
جواب دیںحذف کریں