پیر، 23 ستمبر، 2024

دین اسلام میں نکاح کی اہمیت اور اس کے ثمرات

 روائت ہے کہ جب عرش بریں پر  حضرت آدم علیہ اسلام  گہری نیند سے جاگے تو اپنے قریب ایک پری پیکر وجود کو پایا اور آپ علیہ السلام وارفتہ اس وجود  کی جانب بڑھے تب ندائے پروردگار آئ -ٹہر جائیے آدم علیہ السلام پہلے نکاح ہوگا -پھر  نکاح کی رسم کے بعد حضرت آدم علیہ السلام نے  پانچ مزید بشر کو پایا  یہ پنجتن پاک کے وجود  مبارک تھے  جو نکاح کی تقریب میں شریک ہوئے تھے -یعنی اللہ کریم و کارساز نے روز ازل سے ہی  عفّت و عصمت کا محافظ ،” نکاح ”کو قرار دیا  اس رشتے سے اِنسانی معاشـرت کا آغاز ہوتا ہے  یہی رشتہ   پاکیزہ نسب کا ضامن ، ذہنی ،جسمانی ،روحانی ،سماجی اخلاقی و  بلندی کردار اورنفسیاتی مفسدات کا معالج ، شریف خاندان اور صالح معاشرے کے قیام کا موجب ہے جسے اِسلام نے عام ضروریاتِ زندگی کی طرح بےحد آسان بنایا تاکہ معاشرے میں کوئی مرد  یا عورت غیر شادی شدہ نا رہے


لیکن بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس متبرک اور سادہ رسم کو  ہمارے سماج نے اتنا پیچیدہ کر دیا ہے کہ  لوگ  اپنے بچوں کی شادیوں کانام پر خاموشی سے وقت کو گزارتے ہیں تاکہ بیٹی ہے تو اس کا جہیز تیار کر سکیں اور بیٹا ہے تو اس کی بری اور  زیور تیار کر سکیں  نتیجہ یہ ہے کہ نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو  سماجی  فضا کی آ لودگی کا سبب بنتے ہیں شادیاں مشکل ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کے تصورات بھی بدل گئے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے شادی کے لیے لڑکے کا تعلیم یافتہ اور مہذب ہوناکافی سمجھاجاتا تھا لیکن اب لڑکی والے الگ گھر، گاڑی اورسرکاری نوکری کاتقاضا کرتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ لڑکے کے گھر میں کتنے افراد ہیں، خاندان زیادہ بڑا تو نہیں،عام طورپراسی لڑکے کو ترجیح دی جاتی ہے جس پر بھائی ، بہنوں کی ذمہ داری نہ ہو


 اگر آج سے پچاس برس پیچھے چلے جائے  تو خاندان کے اندر شادیاں کروانے کا رواج تھا،جس کی بدولت شادیاں آسانی سے ہوجاتی تھیں البتہ  جدید  طبی تحقیق نے بتایا کہ  کزن میرج  کرنے کی صورت میں بچوں میں معذوری کا امکان بڑھ جاتاہے۔چنانچہ اس کے بعد لوگ خاندان سے باہر رشتہ ڈھونڈنے لگے ۔خاندان کے اندر رشتہ کرنے کی صورت میں فریقین بہت سی چیزوں پرسمجھوتاکرلیتے تھے لیکن اب لوگ خاندان سے باہر رشتہ تلاش کرتے ہیں اور انھیں ذات برادری کے نام پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے جس کی وجہ سے شادیاں تاخیر کا شکار ہورہی ہیں۔مردوں اور خواتین میں جس کی عمرتیس ،پینتیس برس سے بڑھ جاتی ہے اس کے لیے شادی کرنا اوربھی مشکل ہوجاتاہے کیوں کہ اس   لڑکی یا لڑکے نے زندگی کاطویل حصہ  جیون ساتھی کے بغیر  گزارہ ہوتا ہےیہ لوگ کئی طرح کے تجربات اورمشاہدات سے گزرے ہوتے ہیں جو انھیں منطقی بنادیتے ہیں۔ان کے لیے جو رشتہ آتاہے یہ بہت باریکی کے ساتھ اسے جانچتے اور عقل کے ترازو پرپرکھتے ہیں،یاد رکھئے ایک مشہور مثل ہے جتنا چھانو اتنا کر کرا نکلے گا - رشتوں میں اس قدر ناپ تول نہیں کیا جاتا بلکہ کچھ چیزوں کوقبول کرناپڑتاہے۔


بیس ، پچیس سال کی عمرلااُبالی پن کی ہوتی ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاں کچھ چیزوں پر سمجھوتاکرلیتی ہیں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوجاتی ہیں، ایک بہن گھر میں رہ جاتی ہے جووالدین کی خدمت کرتی ہے۔اب بعض والدین اس وجہ سے اپنی بیٹی کارشتہ نہیں ہونے دیتے کہ اگر یہ بھی گھر سے چلی گئی توہماراخیال کون رکھے گا۔یہ اپنی بیٹی پر ظلم ہے اور اللہ  کے حکم کے  بھی خلاف ہے۔یہ بات یادرکھیں کہ انسان کو جوانی میں  جیون ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ عمراگرہم سفر کے بغیرگزرجائے تو اس کے بعدانسان کی شخصیت میں نفسیاتی  عوارض پیدا ہوجاتے ہیں۔وہ مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتاہے اور اس کے اندرگھٹن بھی بڑھ جاتی ہے جس کااظہار وہ مختلف منفی رویوں کی صورت میں کرتاہے۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ ان کی بیٹی کے لیے جب بھی مناسب رشتہ آجائے اسے قبول کرکے بیٹی کاگھر بسائیں۔


شادیاں مشکل بنانے کے ذمہ دارہم سب ہیں۔دین اسلام نے نکاح کوانتہائی آسان بنایاہے اورولیمے کاحکم بھی فرد کی استطاعت کے مطابق دیاہے لیکن معاشرے کی نام نہاد رسومات اور دکھاوے کی کوشش میں ہم نے اسے انتہائی مشکل بنادیا ہے۔آج نکاح کے لیے مہنگے ترین ہال بک کرائے جاتے ہیں۔کئی کئی دن پروگراموں کا سلسلہ چلتاہے جس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کی شادی پرمجموعی طورپرایک کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اوریہ سب کچھ اس لیے کیاجاتاہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں۔دراصل جب ہم اسراف کی انتہاکردیتے ہیں تویہیں سے بے برکتی کی بنیادپڑجاتی ہے ۔اگر شادی کا مقصد میاں بیوی کاسکون ، راحت اورآسودگی ہے تو اس کے لیے لوگوں کو خوش کرنے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔اگرہم اسی طرح رسم و رواجوں کی دنیا میں  سر نگوں رہیں گے    تو ہمارا سماج ہمارے ہاتھوں  یرغمال رہے گا   


د   


1 تبصرہ:

  1. غیرضروری رسم و رواج نے آج شادی کوانتہائی مشکل بنادیا ہے۔ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے شادی کودکھاوابنادیا ہے۔یہاں شادیاں گھر بسانے سے زیادہ لوگوں کودکھانے کے لیے کی جاتی ہیں۔اس میں بے شمار رسمیں نبھائی جاتی ہیں اور دونوں طرف سے بے تحاشاقیمتی چیزیں دی اور لی جاتی ہیں

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر