خلد بریں کے سفر پر روانہ ہوئے امام حسن
اپنے نانا سے ملنے روانہ ہوئے امام حسن
ہے تیروں کی بارش جنازے پہ دیکھو
یہ امّت کا اجر رسالت ' تماشہ تو دیکھو
روایات کے مطابق ۲۸ صفر سبط اکبر رسول خدا، حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شھادت کا دن ہے، وہ امام جس کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے جوانان جنت کا سردار قرار دیا۔ رسول اکرم 'ہادئ دوجہاں صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم آپ علیہ السّلام سے بہت محبّت کرتے تھے-لیکن وائے زمانے جس نبی نے اپنا اجر رسالت اپنی آل سے محبّت کی شکل میں مانگا تھا وہ کتنی جلدی آپ کی آل کی خون کی پیاسی ہو گئ اور زہر ہلاہل سے آپ کو شہید کر ڈالا -قاتلہ کو لالچ دی گئ تھی کہ امام حسن کو قتل کرے گی تو اس کی شادی یذید سے کی جائے گی -جب اس نے اپنا کام مکمّل کر لیا تب وہ محل شام پہنچی اور اپنا عوض طلب کیا تو اس کے ہاتھ اور پاوں باندھ کر اسے دریا برد کر دیا گیا تاکہ قتل کی گواہی مٹ جائے
امام حسن مجتبی علیہ السلام: بے شک ہماری محبت بنی آدم سے گناہوں کو اسی طرح گرادیتی ہے جس طرح ہوا کا جھونکا درخت سے (سوکھے )پتوں کو گرادیتا ہے ۔
اے بنی آدم! محرمات الٰہی سے باز رہو تو عابد بن جاؤ گے ۔
اللہ کی تقسیم سے راضی رھو تو بے نیاز ہو جاؤ گے ۔
جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی ایک دعا مستجاب ہے چاہے جلدی چاہے تاخیر سے ۔بے شک قرآن میں ہدایت کے روشن چراغ اور دلوں کی شفا ہے لہٰذا اپنی آنکھوں کو اس کے ذریعہ جلا بخشو اور اپنے دل کو اس کے ذریعہ صیقل دو۔
غور وفکر کرنا بصیر آدمی کے دل کی زندگی ہے جس طرح تاریکی میں راستہ چلنے والا اپنے ساتھ روشنی لے کر چلتا ہے
اس قرآن میں ہدایت کی روشنی کے چراغ اور دلوں کی شفا ہے ۔
۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام: جو نماز پڑھنے کے بعد طلوع آفتاب تک اپنے مصلے پر بیٹھا رہے اس کو جہنم کی آگ سے بچنے کی سپر حاصل ہو جاتی ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ماہ رمضان کو اپنی مخلوقات کے لئے مسابقہ کا میدان قرار دیا ہے کہ جس میں مخلوقات خدا کی اطاعت کے ذریعہ اس کی مرضی حاصل کرنے پر سبقت لیتے ہیں جہاں ایک گروہ سبقت لے کر کامیاب ہو جاتا ہے اور دوسرا کوتاہی کر کے گھاٹے میں رہ جاتا ہے ۔
جو علماء کی ہمنشینی میں زیادہ رہے گا اس کی زبان کا بندھن کھل جائے گا اور اس کے ذہن کی گرھیں وا ہو جائیں گی۔اور اپنے نفس میں رشد وارتقاء کا سرور پائے گا اور مذید کی جستجو رکھو اگر اسے حفظ نہ کرپاؤ تو لکھ لو اور اپنے گھروں میں محفوظ رکھو ۔
جو اللہ کی معرفت رکھے گا اللہ اس سے ضرور محبت کرے گا، اور جو دنیا کی محبّت اپنے دل میں رکھے گا وہ دنیا میں غلطاں ہو جائے گا
۔ کسی کو اپنا اس وقت تک دوست نہ بناؤ جب تک کہ اس کے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ نہ سمجھ لو ۔ اور جب تمہیں معلومات فراہم ہو گئیں اور اس کی ہمنشینی سے تم راضی ھوگئے تو پھر اسے اپنا دوست اور بھائی بنالو اور اس کی کوتاہیوں سے در گذر کرو اور مشکل وقت میں اس کے کام آؤ ۔
بخل یہ ہے کہ انسان جو انفاق کرے اسے تلف سمجھے اور جسے بچالے اسے شرف سمجھے
زنا نہ کرنا، چوکھٹ کو صاف رکھنا، برتن کو دھلا ہوا رکھنا بے نیازی و ثروت کا باعث ہے ۔
سیاست یہ ہے کہ حقوق اللہ، زندوں اور مردوں کے حقوق کی رعایت کرو
نعمت پر شکر ادا کرنا، اور مصبیت پر صبر کرنا ہے ۔خدا کو بہت پسند ہے
اے بنی آدم ! تم جب سے اپنی ماں کے شکم سے باہر آئے ہو مسلسل اپنی زندگی کی عمارت ڈھار ہے ہو لہٰذا جو سامنے آنے والا ہے (قیامت) اس کے لئے موجودہ زندگی سے توشہ فراہم کر لو کہ مومن زاد راہ فراہم کرتا ہے اور کافر لذتوں میں مست رہتا ہے ۔
جو تمہیں ڈراتا رہے یہاں تک کہ تم اپنی آرزو کو پالو اس شخص سے بہتر ہے جو تمہیں اطمینان دلاتا رہے یہاں تک کہ تمہیں خوف لاحق ہو جائے ۔
تم سے نزدیک وہ ہے جو مودت و محبت کے ذریعہ تم سے قریب ہو ا ہے چاہے حسب ونسب کے اعتبار سے دور ہی کیوں نہ ہو۔ اور دور وہ ہے جو محبت کے اعتبار سے دور ہے چاہے تمہارا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔
کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا فقر و تنگدستی کو ختم کرتا ہے اور کھانے کے بعد ھم وغم کو دور کرتا ہے ۔
آپؑ کا علمی مقام-یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ آئمہ معصومینؑ علم لدنی کے مالک ہیں اس لیے وہ کسی سے تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائلِ علمیہ سے واقف ہوتے ہیں جن سے عام لوگ حتّی کہ دانشمند حضرات بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ امام حسنؑ نے بھی بچپن میں لا تعداد ایسے عملی مسائل کے جوابات دیئے کہ جن سے بڑے بڑے اہلِ علم عاجز تھے۔ ہم یہاں فقط ایک سوال کا جواب ہی پیش کر سکتے ہیں: آپؑ سے پوچھا گیا:
وہ دس چیزیں کونسی ہیں جن میں سے ہر ایک کو خداوند عالم نے دوسرے سے سخت پیدا کیاہے؟آپؑ نے جواب میں فرمایا: ‘‘خدا نے سب سے زیادہ سخت پتھر کو پیدا کیا ہے مگر اس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھر کو بھی کاٹ دیتا ہے اور اس سے بھی زیادہ سخت آگ ہے جو لوہے کو پگھلا دیتی ہے اور آگ سے زیادہ سخت پانی ہے جو آگ کو بجھا دیتا ہے اور اس سے زیادہ سخت اور قوی ابر ہے جو پانی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے اور اس سے زیادہ طاقتور ہوا ہے جو ابر کو اڑائے پھرتی ہے اور ہوا سے سخت تر وقوی فرشتہ ہے جس کی ہوا محکوم ہے اوراس سے زیادہ سخت و قوی ملک الموت ہے جو فرشتۂ باد کی بھی روح قبض کرلے گا اور موت سے زیادہ قوی حکمِ خداہے جو موت کو بھی ٹال دیتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں