خواجہ نظام الدّین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اور نسبت امام علی نقی علیہ السّلام
سلطان المشائخ المعروف محبوبِ ا لٰہی اللہ علیہ کے والد سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچازاد بھائی تھے اس طرح خواجہ جی رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ ء نسب نجیب الطّرفین سادات سے جا ملتا ہے یہ وسطِ ایشیا کی ایک ریاست ازبکستان کے شہر بخارا میں اپنے آبائ وطن سرزمین عرب کو ترک کر کے یہاں آ بسے تھےان کا تعلّق اہلِ تشیع کے سلسلہء امامت کے نویں امام علی نقی علیہالسّلام سے تھا بخاری کہلائے جانے کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہامام علی نقی علیہ السّلام کے یہاں دو صاحبزادگان پیدا ہوئے ان صاحبزادگان نےاپنے آبائ وطن سر زمین عرب کو خیر باد کہ کر وسط ایشیا ئ ریاست کے شہر بخارا کو رہنے کے منتخب کیا اور ان میں سے ایک بھائ نے اپنے نام کے ساتھنقوی لگانے کے بجائے بخارا کی نسبت بخاری کہلانا پسند کیا جبکہ دوسرےصاحبزادے نے اپنے نام کے ساتھ اپنے پدر گرامی امام علی نقی علیہالسّلام کے نام کی نسبت نقوی نام کا لاحقہ پسند کیاامام علی نقی علیہ السّلام سے نسبتِ خاص ہونے کے سبب یہ خاندان خود بھی ولیوں کا خاندان تھاسید عرب علیہ الرحمہ طویل عرصے سےبخارا میں مقیم تھے۔ تجارت آپ کا پیشہ تھا اور اﷲ نے آپ کی روزی میں بہتبرکت دی تھی۔ مشہور مورخ خاقی خان کی روایت کے مطابق حضرت سید عرب علیہالرحمہ حضرت خواجہ عثمان ہرونی علیہ الرحمہ کے مرید اور خلیفہ تھے۔خاندان چشتیہ کے یہ وہی مشہور بزرگ ہیں جو سلطان الہند حضرت خواجہ معینالدین چشتی علیہ الرحمہ کے پیرومرشد تھے۔ اس طرح حضرت سید عرب علیہالرحمہ اور حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ میں رشتہ سادات کے علاوہرشتہ روحانی بھی موجود تھا۔ حضرت سید عرب علیہ الرحمہ بخارا میں اقامت گزین ہوتے ہوئےبہت دنوں سےہندوستان جانے کے بارے میں سوچ رہے تھے تاکہ اس ملک کے حالات کا جائزہ لےکر تجارتی روابط قائم کرسکیں۔کچھ دن بعد حضرت سید عرب علیہ الرحمہ نے خواب میں دیکھا۔ کوئی شخص انہیںمخاطب کرکے کہہ رہا تھا’’سید! تمہارا ارادہ نیک ہے، ہندوستان چلے جاؤ‘‘اب سید عرب علیہ الرحمہ کو یقین ہوگیا کہ عازم ہندوستان ہونے کا خیال بےسبب نہیں تھا۔ آپ نے زوجہ محترمہ سے اپنا خواب بیان کیا، وہ ایک وفا شعارخاتون تھیں۔ انہوں نے شوہر کے خواب کو حقیقت سمجھا اور رضامندی کا اظہارکردیا۔حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ، حضرت سید عرب علیہ الرحمہ کے حقیقی چچازاد بھائی بھی تھے اور دونوں میں بہت گہری دوستی بھی تھی۔ جب سید عربعلیہ الرحمہ ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے تو سید علی بخاری علیہ الرحمہبھی ہمراہ تھے۔ کچھ دنوں تک یہ دونوں بزرگ اور دونوں بھائی لاہور میںمقیم رہے اور پھر ان دونوں سید خاندانوں نے بدایوں میں مستقل سکونتاختیار کرلی۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے دو صاحبزادے تھے۔ خواجہ عبداﷲ علیہالرحمہ اور خواجہ سید محمودعلیہ الرحمہ ۔ ایک صاحب زادی بی بی زلیخا علیہالرحمہ تھیں، جنہیں زہدوتقویٰ کے سبب اپنے زمانے کی رابعہ بصری علیہالرحمہ کہا جاتا تھا۔ سید عرب علیہ الرحمہ کے سینکڑوں خدمت گارتھے جو آپکے پیسے سے تجارت کرتے تھے۔ سید عرب علیہ الرحمہ کا شمار امیر وکبیرلوگوں میں ہوتاتھا۔ جب بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جوان ہوئیں تو سید عربعلیہ الرحمہ نے اپنے چچا زاد بھائی اور دوست سید علی بخاری علیہ الرحمہسے کہا۔’’میں چاہتا ہوں کہ میرے اور تمہارے خاندانی رشتے زیادہ مضبوط ہوجائیں‘‘سید علی بخاری علیہ الرحمہ سید عرب علیہ الرحمہ کی گفتگو کا مفہوم سمجھنےسے قاصر رہے۔’’یہ رشتے روز اول کی طرح مضبوط ہیں اور بفضل خدا آئندہ بھی اسی طرحاستوار رہیں گے‘‘’’علی! تم جانتے ہو کہ میری بچی زلیخا سن بلوغت کو پہنچ چکی ہے۔ اس لئےمیں اس کی شادی کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں‘‘سید عرب علیہ الرحمہ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔’’کوئی لڑکا آپ کی نظر میں ہے؟‘‘سید علی علیہ الرحمہ نے پوچھا۔’’تمہارے بیٹے سید احمد سے بہتر لڑکا کون ہوسکتا ہے؟‘‘سید عرب علیہ الرحمہ نے دوست کے سامنے اپنا عندیہ ظاہر کردیا۔’’نہیں شیخ! وہ آپ کے ہم پایہ نہیں ہے‘‘سید علی علیہ الرحمہ نے کسی تکلف کے بغیر کہا۔’’میرے اور آپ کے معاشی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ ظلم ہے کہنازونعم میں پرورش پانے والی لڑکی کو ایک ایسے شخص سے وابستہ کردیا جائےجس کے ذرائع آمدنی بہت محدود ہوں‘‘’’علی! تم نہیں جانتے کہ کثرت مال کے باوجود میں نے اپنے بچوں کو فقر وقناعت کی تعلیم دی ہے‘‘سید عرب علیہ الرحمہ نے کہا۔’’میں اپنی بیٹی کا ہاتھ اس نوجوان کے ہاتھ میں دے رہا ہوں جو زہد وتقویٰاور علم کی دولت سے مالا مال ہے‘‘آخر سید علی علیہ الرحمہ اس نئے رشتے پر رضامند ہوگئے اور 615ھ میں سیداحمد بخاری علیہ الرحمہ اور بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی شادی ہوگئی۔بیٹی کی شادی کے ایک سال بعد 616ھ میں سید عرب علیہ الرحمہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ جیسی نیک سیرت خاتونسے وابستگی کے بعد بہت خوش تھے لیکن حالات کی تنگی کے باعث اکثر کہا کرتےتھے’’میں تمہیں وہ آسائشیں نہیں دے سکتا جن کی تم بچپن سے عادی رہی ہو‘‘بی بی زلیخا علیہ الرحمہ اپنے شریک زندگی کی تالیف قلب کے لئے عرض کرتیں’’ایک مسلمان عورت کی آسائشوں کی معراج یہ ہے کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہے‘‘’’بی بی! میں دل و جان کے ساتھ تم سے راضی ہوں مگر یہ خلش مجھے ہمیشہ بےچین رکھتی ہے‘‘سید احمد بخاری علیہ الرحمہ ایک حساس انسان تھے۔ اس لئے بی بی زلیخا علیہالرحمہ کی تکلیف کا خیال کرکے بے قرار ہوجاتے تھے۔ شادی سے پہلے یہ صورتتھی کہ بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کی خدمت کے لئے کئی نوکرانیاں مامور تھیں… اور اب یہ حال تھا کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے گھر کا سارا کام کاج کرناپڑتا تھا۔پھر کچھ دن بعد سلطان شمس الدین التمش کے حکم کے مطابق سید احمد بخاریعلیہ الرحمہ کو بدایوں کے عہدہ قضا پر فائز کردیا گیا۔ والی ہندوستان نےسید احمد بخاری علیہ الرحمہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔’’مجھے دیر سے خبر ملی کہ بدایوں میں آپ جیسا صاحب کردار شخص موجود ہے۔براہ کرم عہدہ قضا قبول فرمایئے اور اسلامی سلطنت کے استحکام میں میرےساتھ تعاون کیجئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں گےاور اس مقدس عہدے کوامراء کی دراز دستیوں سے محفوظ رکھیں گے‘‘حضرت سید علی علیہ الرحمہ نے سلطان شمس الدین التمش کا شکریہ ادا کیا اوراس دعا کے ساتھ کرسی انصاف پر جلوہ افروز ہوئے۔’’اے قادر و عادل! اپنے اس کمزور بندے سید علی کو اتنی طاقت عطا کر کہ وہاپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہوسکے‘‘حضرت سید علی بخاری علیہ الرحمہ نے کبھی کسی امیر و وزیر کی سفارش قبولنہیں کی اور آزادانہ فیصلے کئے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ برسر اقتدارطبقے کے کسی فرد کو ملزم کی حیثیت سے عدالت میںلایاجاتا مگر آپ اسے کسیقسم کی رعایت نہ دیتے۔ آپ کے اس طرز عمل کے خلاف دربار سلطانی میں شکایتکی گئی کہ سید احمد بخاری علیہ الرحمہ امراء کا لحاظ نہیں رکھتے۔والی ہندوستان شکایت کرنے والوں کو سردبار جھڑک دیتا’’سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بحسن و خوبی اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔ اگرمجھے یہ اطلاع دی جاتی کہ بدایوں کے قاضی امراء کے احترام میں کھڑےہوجاتے ہیں تو میں ان کی گرفت کرتا۔ یہ تو ان کے منصف ہونے کی روشن دلیلہے کہ وہ مقدمے کے دوران بیرونی اثرات کو قبول نہیں کرتے۔ آئندہ اس قسمکی شکایتیں کرکے میرا وقت برباد نہ کیا جائے‘‘حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ کی زندگی پرسکون تھی مگر پھر بھی ایکخلش انہیں مضطرب رکھتی تھی۔ شادی کو پندرہ سال ہوچکے تھے مگر سید احمدبخاری علیہ الرحمہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ بی بی زلیخا علیہ الرحمہبھی اکثر اداس رہا کرتی تھی۔ سید احمد علیہ الرحمہ انہیں مختلف انداز میںتسلیاں دیتے۔ جواب میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ فرماتیں۔’’میں اداس ضرور ہوں مگر رحمت حق سے مایوس نہیں ہوں‘‘آپ اکثر رات کے سناٹے میں وہ دعا مانگا کرتے تھے جو حضرت ذکریا علیہالسلام کا ورد تھا۔ اﷲ کے یہ محبوب پیغمبر اولاد کی تمنا کرتے کرتے بوڑھےہوچکے تھے مگر آپ نے امید کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ روزانہ نصف شب کو خالقکائنات کے سامنے اپنا دامن مراد پھیلا دیتے تھے اور گریہ و زاری کے ساتھعرض کرتے تھے۔’’اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ کہ تو بہتر وارث دینے والا ہے‘‘پھر ایک دن جلیل القدر نبی حضرت یحییٰ علیہ السلام پیدا ہوئے جو حضرتذکریا علیہ السلام کی مراد تھے۔حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمہ بھی رات کی تاریکیوں میں غمناک آنکھوںکے ساتھ یہی دعا مانگا کرتے تھے۔آخر دعائیں مقبول ہوئیں اور 636ھ میں بی بی زلیخا علیہ الرحمہ کے بطن سےایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے چہرے کی روشنی سے گھر کے دروبام منور ہوگئے۔بچے کا نام سیّد محمد رکھا گیا۔ ۔ابھی یہ بچّہ صغیر سن ہی تھا کہ گھر کے دروازے پر ایک اجنبی مردِ قلندر نے آواز دی اور سیّد محمّد جیسے ہی دروازے پر گئے اجنبی نے انہیں نظام الدّین کا لقب عطا کر دیا اور یہی لقب آپ کے لئے زبانِ زدِ عام ہو گیا,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,لیکن آپ کو آپ کی والدہ پیار سے نظام کہ کر پکارتی تھیں ،،ابھی تو بچپن کا ابتدائ زمانہ ہی بیت رہا تھا کہ والد گرامی کا مظبوط سایہ سر سے اٹھ لیکن آپ کی باہمّت اور خودادر والدہ بی بی زلیخا نے ناتو اپنے امیر کبیر میکے سے مدد چاہی اور نا ہی بچّے کو تحصیلِ علم کی راہ میں مالی مشکلات کا شکار ہونے دیااور اپنے گھر کی چاردیواری میں بیٹھ کر سوت کات کات کر ہونہار بیٹے کی تعلیم پوری کرتی رہیں یہاں تک کہ حضرت خواجہ نظام ا لدّین رحمۃ اللہ علیہ کے سر پر دستار ِ فضیلت باندھنے کا وقت آ پہنچاسولہ سال کی عمرمیں دہلی تشریف لائ۔ اپنے وقت کے فاضل ترین اساتذہ سے حدیث، فقہ، ہیئت،
اصول، تفسیر اور علم ہندسہ کی تعلیم حاصل کی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنے
علم کی وسعت اور قوت استدلال کے سبب ’’محفل شکن‘ کہلائے… اور نوجوانی ہی
میں تمام علمائے ہند پر سبقت لے گئے۔ عوام میں آپ کی محبوبیت کا یہ عالم
تھا کہ قیامت تک کے لئے محبوب الٰہی قرار پائے۔ سلطان علاؤ الدین خلجی
جیسا باجبروت حکمران زندگی بھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی
زیارت کے لئے ترستا رہا مگر آپ علیہ الرحمہ نے اسے ملاقات کا شرف نہیںبخشا۔گیا ۔بدایوں شریف سے علمِ حصولی کی تحصیل کے بعد والدہ محترمہ اور ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ دہلی تشریف لائےاوریہاں سلطان التمش کے اتالیق مولانا شمس الملک سے علومِ ظاہری کی اعلیٰتعلیم حاصل کی اور بہت جلد آپ کا شمار دہلی کے ممتاز علماءو فضلاءمیںہونے لگا۔شروع دن سے ہی آپ کے قلب مبارک میں عشق الٰہی کی شمع روشن تھیتمام تر دینی و دنیوی علوم میں اوج و کمال کے باوجود علم حقیقت و معرفتکی تشنگی ان کے دل کو بیقرار رکھتی تھی۔انہیں روحانی و باطنی رہنمائی کےلیے ایک مرشد کامل کی شدید آرزو تھی ایک بارجب آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہقطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ کی زیارت کے لیےوہاں حاضر ہوئے تو ایک مجذوب بزرگ سے ملاقات ہوئی آپ نے ان سے دعا کیدرخواست کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں دہلی شہرکے قاضی کے عہدہ پر فائزکر دےان بزرگ نے فرمایا: نظام الدین تم قاضی بنناچاہتے ہو،میں تو تمہیں دینِحق کے بادشاہ کے عہدہ پر فائز دیکھ رہا ہوں، تم وہ بلند مرتبہ حاصل کروگےکہ ساری دنیا تم سے فیض پائے گی۔حضرت کے دوست مرّبی اور اپنے وقت کے بہتبڑے ولی کامل حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رحمة اللہ علیہ نے بھی حضرتمحبوبِ الٰہی سے فرمایا تھا تم قاضی نہیں ایسی چیز بنوگے جسے میں جانتاہوں اور پھر ایک دن ابو بکر نامی ایک قوال ملتان سے دہلی پہنچا اس کیزبانی حضرت خواجہ فرید الدین چشتی گنج شکر رحمة اللہ علیہ کے حالات وکمالات سنے آپ کے دل میں بابا صاحب سے محبت کا ایسا شدید غائبانہ جذبہبیدار ہواکہ آپ ان کی زیارت کے لیے بیقرارہوگئے اور اجودھن پہنچ کرحضرتبابا فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔حضرت صاحبعلیہ الرحمہ کو بہ تائید ربانی حضرت نظام الدین کی روحانی خصوصیات کا علمتھا۔یقیناً حضرت بابا فرید رحمة اللہ علیہ اس امر سے آگاہ تھے کہ نظامالدین کو اللہ پاک نے کس عظیم خدمت کے لیے تیارکیاہے۔حضرت نظام الدینبابا صاحب کے مریدبنے اور چند ماہ اپنے مرشد برحق کی خدمت میں رہ کر انکی خصوصی توجہ اور محبت حاصل کی اور خرقہ خلافت کی نعمت سے سرفراز ہوکردہلی واپس تشریف لائے اور مرشد کے فرمان کے مطابق مجاہدہ اور عبادات میںمشغول ہوکرمادی دنیاکی تمام خواہشات اور آرزﺅں سے الگ ہوگئے۔آپ ہمیشہروزہ رکھتے تھے عبادات اور سخت ریاضت کے ساتھ ساتھ آپ درس و ہدایت اوراصلاح معاشرہ کے فرائض بھی انجام دیتے ۔دلی شہر میں آپ کی عظمت و بزرگیکا زبردست شہرہ ہوا اور ہر وقت ارادتمندوں کا ہجوم آپ کے ارد گرد رہنےلگا اس سے آپ کی عبادات میں خلل پڑنے لگا، آبادی سے گھبرا کر آپ ایک دنموضع حوض رانی کے قریب ایک باغ میں جاکر یادِ الٰہی میں مشغول ہوئے۔وہاںآپ نے دعا مانگی اے اللہ! میں اپنے اختیار سے کہیں رہنا نہیں چاہتاجہاںتیری رضا ہو مجھے وہاں رکھ۔غیب سے آواز آئی غیاث پور تیری جگہ ہے (واللہعلم) یہ وہی جگہ ہے جہاں آج بستی حضرت نظام الدین اولیاءکا شاندارعلاقہہے۔اس وقت غیاث پور ایک چھوٹا ساگاﺅں تھا اللہ کے حکم سے آپ نے اس متبرکمقام پر قیام فرمایا۔یہ سلطان غیاث الدین بلبن کا دورِ حکومت تھا۔سلطانآپ کا بے حد معتقد تھااس نے آپ سے شہر میں قیام فرمانے کی درخواست کیلیکن آپ نے منع فرما دیاآپ کی برکتوں سے وہ ویران مقام بہت جلد زیارت گاہخلق بنا۔دور دور سے ہزاروں لوگ آپ کی دعاﺅں سے اپنی زندگی سنوارنے کے لیےحاضر ہونے لگے یہاں تک کہ آپ کی محبوبیت اور آپ کی ہر دلعزیزی کی شہرت
ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیلتی گئی۔ حضرت سلطان المشائخ محبوب الہی نظام الدین اولیا کی ولادت یو پی کے مشہور شہر بدایوں میں ہوئی تھی۔ پیدائش کے سنہ میں اختلاف ہے کوئی 634ھ کہتا ہے کوئی 636ھ۔ وصال دہلی میں 18 ربیع الثانی 725ھ کو ہوا۔ ماں باپ: حضرت کی والدہ اور والد دونوں بڑے نیک اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ والدہ کا نام سیدہ بی بی زلیخا تھا اور والد کا اسم گرامی سید احمد تھا۔ والدہ کا خواب: سیدہ بی بی زلیخا اور حضرت سید احمد کو اللہ تعالی نے دو بچے عنایت کیے تھے۔ ایک سید محمد جو بعد میں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی کے نام سے مشہور ہوئے اور دوسری صاحبزادی سیدہ بی بی زینب یہ دونوں بچے ابھی بہت کم عمر تھے کہ والدہ ماجدہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی پوچھتا ہے بیٹا چاہتی ہو یا شوہر؟ ان کے منہ سے بے اختیار نکل گیا بیٹا! نیند سے ہوشیار ہوئیں تو افسوس کرنے لگیں کہ میں نے بیٹے کی بجائے شوہر کیوں نہ کہا مگر پھر اس خیال سے دل کو تسلی دے لی کہ خواب کی باتیں اپنے اختیار کی تھوڑی ہوتی ہیں۔ اس واقعے کے بعد خدا کا کرنا یہ ہوا کہ حضرت سید احمد اپنے دونوں چھوٹے چھوٹے بچوں اور اہلیہ محترمہ سیدہ بی بی زلیخا کو چھوڑ کر جنت سدھار گئے۔ ا
گرچہ حضرت سیدہ بی بی زلیخا نے میکے والوں سے امداد لینی پسند نہیں کی اور خود محنت مشقت کر کے اپنے یتیم بچوں کی پرورش کرنے لگیں۔ وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور لونڈی اسے بازار میں جاکر بیچ آتی تھی۔ گزر بسر ہو جاتی تھی۔ مگر ایسی تنگی ترشی سے کہ بیوہ ماں اور بن باپ کے بچوں کو کئی کئی وقت کے فاقے کرنے پڑتے تھے۔ تاہم اس صابر خاتون کی پیشانی پر بل نہ آتا تھا اور پیارے بچے بھی ماں کے ساتھ راضی برضا رہتے تھے۔ اللہ میاں کے مہمان: جس دن حضرت کے ہاتھ فاقہ ہوتا تھا۔ ماں بچوں سے کہتی تھیں کہ آج ہم اللہ میاں کے مہمان ہیں! بچے سمجھ جاتے تھے کہ آج گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے اور روٹی کی ضد کرنے کی بجائے بھوکے پیٹ ہی خوش رہتے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے بچپن میں خدا کی مہمانی کا اتنا شوق ہو گیا تھا کہ اب کئی وقت تک ہم کو کھانا ملتا رہتا تھا تو میں والدہ سے پوچھا کرتا تھا کہ ہم اللہ میاں کے مہمان کب بنیں گے؟
تعلیم: بدایوں اس زمانے میں بڑا آباد شہر تھا اور یہاں بڑے بڑے عالم اور اولیا اللہ رہا کرتے تھے۔ حضرت محبوب الہی نے بھی ان علما سے تعلیم پائی اور بزرگوں کا فیض اٹھایا۔ حضرت مولانا علاالدین اصولی بھی حضرت کے استادوں میں تھے۔ ان کا مزار بدایوں شریف میں ہے استاد نے کہا کہ اب تم اس قابل ہو گئے ہو کہ دستار فضیلت تمہارے سر پر باندھی جائے چنانچہ حضرت کی والدہ ماجدہ نے خود اپنے ہاتھ سے سوت کاتا اور اس کی پگڑی بنی اور تمام مشائخ اور اولیااللہ کے جلسے میں حضرت کی دستاربندی ہوئی۔ دہلی تشریف آوری: بدایوں کی تعلیم پوری کرنے کے بعد حضرت مزید اعلی تعلیم کیلئے دہلی تشریف لائے اور یہاں کئی برس تک علم حاصل کرتے رہے اور دہلی کے مشہور علما مولانا شمس الملک اور استاد مولانا کمال الدین زاہد کو آپ کا استاد بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوران کچھ عجب اتفاقات بھی ہوئے جن کے باعث حضرت نظام الدین اولیا کے دل میں حضرت بابا فرید گنج شکر کی محبت پکی ہوتی گئی۔ ادھر دہلی پہنچ کر حضرت ٹھہرے تو اتفاق سے حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کے پڑوس میں ٹھہرے حضرت متوکل بابا صاحب کے بھائی اور بڑے عالم اور پہنچے ہوئے بزرگ تھے۔ ان سے حضرت کا کافی ملنا جلنا رہا۔ انہوں نے حضرت کو مشورہ دیا کہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے پاس اجودھن جا۔و حضرت محبوب الہی کی تو گویا مراد بر آئی۔ بچپن سے بابا صاحب کی محبت اور عقیدت دل میں بیٹھی ہوئی تھی فورا اجودھن روانہ ہوگئے۔
بیعت: حضرت خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہی اجودھن (موجودہ پاک پتن) پہنچے تو یہ حضرت بابا صاحب کی ضعیفی کا زمانہ تھا اور حضرت محبوب الہی نوعمر تھے۔ بابا صاحب نے ان کو دیکھتے ہی شعر پڑھا۔ اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ (تیری جدائی کی آگ نے دلوں کو کباب کر رکھا ہے اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے جانوں کو خراب کررکھا ہے) حضرت بابا صاحب جیسے جاہ و جلال کا بزرگ ایک اجنبی نوجوان کیلئے یہ شعر پڑھے تو ظاہر ہے کہ نوجوان کا کیا حال ہوگا۔ حضرت بھی سہم کر دم بخود رہ گئے مگر جذبات اور عقیدت کے جوش میں اتنی بات ضرور زبان سے نکلی کہ آپ کی قدم بوسی کا بڑا اشتیاق تھا بابا صاحب نے ان کی کیفیت کو محسوس فرما لیا اور دل جوئی کے طور پر فرمایا نووارد پر اسی طرح خوف طاری ہوا کرتا ہے۔
اجودھن پہنچ کر حضرت محبوب الہی حضرت بابا صاحب کے مرید ہو گئے اور ان کے آنکھوں تلے تعلیم و تربیت پانے لگے۔ اجودھن میں بابا صاحب نے حضرت کو خواجہ سید بدر الدین اسحاق کے سپرد کر دیا تھا کہ انہیں پیر کے ادب آداب سکھائیں۔ حضرت سید بدر الدین اسحاق حضرت بابا صاحب کے داماد اور خلیفہ تھےدہلی تشریف آوری: بابا صاحب کی خلافت معمولی چیز نہیں تھی۔ سلطان المشائخ کو دارالسطنت دہلی جیسے مرکزی مقام پر مامور کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ انہیں مملکت روحانی کا تاجدار بنایا جا رہا ہے مگر اس تاجدار کی اپنی تخت گاہ میں آمد کے وقت کیا شان تھی۔ اس کا انداز ذیل کے واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ دہلی پر مغلوں کا حملہ: اس دوران دہلی پر مغل فوج نے حملہ کر دیا علاالدین خلجی بادشاہ بڑا پریشان ہوا کیونکہ اس کی اچھی فوجیں باہر گئی ہوئی تھیں۔ مجبورا اس نے حضرت محبوب الہی کے پاس آدمی بھیجے تاکہ حضرت دعا فرمائیں اور اس کو فتح نصیب ہو
حضرت نے اس کی درخواست منظور کرکے دعا فرمائی اور کہہ دیا اطمینان رکھو کہ مغل فوج کل انشااللہ واپس چلی جائے گی۔کرامت: سب حیران تھے کہ حضرت کا یہ فرمان کیسے پورا ہوگا کیونکہ مغل حملہ آور شہر کا محاصرہ کیے پڑے تھے۔ بغیر لڑے بھڑے اور اپنا مقصد حاصل کیے وہ واپس کیسے جا سکتے تھے؟ مگر دوسرے دن سب حضرت کی کرامت کے قائل ہو گئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں