یہ چاند کی چودہ تاریخ اورزی الحجہ کا مہینہ
تھا۔کفار قریش کی تعداد بھی چودہ
تھی جن کا سرغنہ ابو جہل تھا۔کفار نے منصوبہ بندی کی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے آسمانی معجزہ دکھانے کو کہتے ہیں
تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے
فرمایا : اگر میں ایسا کردوں تو تم ایمان لے آؤگے؟ بولے لے آئیں گے ۔چونکہ یہ چاند
کی بدر کی رات تھی ۔ ۔
ا کہ جس نے معجزہ نہ دکھایا ہو آپ کے
پاس کونسا معجزہ ہے آج کی رات ؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا : تم
لوگ کیا چاہتے ہو ؟
لوگوں نے کہا : اگر تم ا ور تمہارا رب
سچے ہیں تو چاند کو حکم دو کہ دو حصوں میں تقسیم کردو ۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ آپ پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا سلام ہے اور اس نے ہر چیز کو آپ کے تابع کردیا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے سربلند ہوکر چاند کوحکم دیا اور وہ تقسیم ہوگیا ۔پھر مشرکین نے کہا کہ اس کو اپنی اصلی حالت میں لوٹا دیں تو وہ اپنی پہلی حالت میں لوٹ گیا تھا اور اسی وقت آیہ کریمہ نازل ہوئی
{اقْتَرَبَتِ السّاعَةُ وَانشَقّ الْقَمَر}
لاکھوں درود وسلام آقائے دو جہاں خاتم
ا لمرسلین شفیع المذنبین ،
حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ وآ
لہ وسّلم
شقّ القمر کا واقعہ کب اور کیسے رونما
ہوا
پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم کا ایک معجزہ شق قمر ہے۔ اس معجزہ کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ
الْقَمَرُ وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً
يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ
ترجمہ:
قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
قرآن نے اس شق قمر کو بطور معجزہ ذکر
کیا ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں اس معجزہ کا ظہور ہوا۔
اسی وجہ سے قرآن نے اس کو ماضی کے صیغہ کے ساتھ بیان کیا۔ بعض لوگ اس معجزہ کا
انکار کر کے اس ماضی کے صیغہ کو مستقبل کے مضمون میں قرار دیتے ہیں۔ علاوہ نص قرآنی
کے احادیث متواترہ سے بھی یہ ثابت ہے کہ ”انشقاق قمر“ کا واقعہ عہد رسالت میں پیش
آیا
لیکن چونکہ ان کے دل ٹیڑھے تھے اس
لئےانہوں ملک شام سے اپنے آنے والے قبیلے کی تصدیق کا عذر تراشا اور جب قافلہ بھی وارد ہوگیا اور اسنے شقّ ا
لقمر کی تصدیق بھی کر دی اور یہ
معجزہ 14 ذی الحجہ ہجرت سے سال پہلے دست رسول کریم صلی اللہ علیہ
وآلہ پر پیش آیا ۔
معجزہ شقّ القمرہ معجزہ فقط اہل مکہ
نے نہیں بلکہ مکہ کے اطراف میں رہنے والوں صحرا نشینوں نے بھی دیکھا تھا، ابوجہل
اور دوسرے مشرکین نے صحرا نشینوں سے اس بات کی تصدیق بھی کی تھی کہ انھوں نے بھی چاند کو دو حصوں میں دیکھا ہے۔
ملا محمد قاسم فرشتہؒ تاریخ ہند ص ۴۸۹ ج ۲ میں لکھتے ہیں کہ تیسری صدی ہجری کی ابتداء میں کچھ عرب مسلمان کشتی پر سوار جزائر سری لنکا کی طرف جا رہے تھے کہ طوفانوں کی وجہ سے جزائر مالابار کی طرف جا نکلے اور وہاں گدنکلور نامی شہر میں کشتی سے اترے۔ شہر کے حاکم کا نام ’’سامری‘‘ تھا۔ اس نے مسلمانوں کے بارے میں یہودی اور عیسائی سیاحوں سے کچھ سن رکھا تھا۔ عرب مسلمانوں سے کہنے لگا کہ پیغمبر اسلامؐ کے حالات اور ان کی کچھ علامات بیان کریں۔ ان مسلمانوں نے اسے آنحضرتؐ کے حالات زندگی، اسلام کے اصول و مسائل اور نبی اکرمؐ کے معجزات کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں، دریں اثنا شق القمر کے تاریخی معجزہ کا ذکر بھی کیا۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ ذرا ٹھہرو ہم اسی بات پر تمہاری صداقت کا امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جو بھی اہم واقعہ رونما ہو اسے قلمبند کر کے شاہی خزانہ میں تحریر کو محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ اگر تمہارے کہنے کے مطابق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کے لیے چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو اسے یہاں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہوگا اور اتنا محیر العقول واقعہ ضرور قلمبند کر کے شاہی خزانے میں محفوظ کر لیا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے پرانے کاغذات طلب کیے، جب اس سال کا رجسٹر کھولا گیا تو اس میں یہ درج تھا کہ آج رات چاند دو ٹکڑے ہو کر پھر جڑ گیا۔ اس پر وہ بادشاہ مسلمان ہوگیا اور بعد میں تخت و تاج چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ ہی عرب چلا گیا۔
علامہ سید محمود شکری آلوسیؒ اپنی کتاب مادل علیہ القرآن مما یعضد الہیئۃ الجدیدۃ القویمۃ البرہان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ جب سلطان محمود غزنویؒ ہندوستان پر بار بار حملے کر رہے تھے، انہوں نے بعض عمارتوں پر یہ تختی لکھی ہوئی دیکھی کہ اس عمارت کی تکمیل اس رات ہوئی جس رات چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور ۹ جنوری ۱۹۷۵ء کے صفحہ نمبر ۲ پر خبر شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا
ہے کہ مصری سائنسدان ڈاکٹر فاروق الباز نے، جو واشنگٹن میں طبقات ارضی اور اجرام
فلکی کے تحقیقاتی مرکز کے ڈائریکٹر ہیں، گزشتہ روز مصر کے صدر جناب انور السادات
سے ملاقات کی اور انہیں قرآن کریم کے اس نسخے کا ایک ورق پیش کیا جو اپالو ۱۵ کے خلانورد چاند پر رکھ
کر آئے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے صدر سادات کو مریخ کی ایک وادی کا ماڈل پیش کیا جسے
وادیٔ قاہرہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چاند پر سے لی گئی عرب ممالک کی رنگین
تصویر پیش کی اور چاند پر موجود ایک دراڑ کی تصویر بھی پیش کی جسے عرب دراڑ کا نام
دیا گیا ہے اور جس کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے دور میں جب چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو دوبارہ جڑتے وقت یہ دراڑ رہ گئی تھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں