پیر، 30 جنوری، 2023

نجا شی کا دربار اور حضرت جعفر طیّار

 

  حضر ت جعفر ابن ابی طالب جعفر طیار کے نام سے  آ پ کی خا نوا د ہ  حضرت عبد المطّلب میں آ پ کی شہرت ہے ۔ آپ حضرت علی 

علیہ السلام کے بھائی اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عم زاد بھائی تھے۔ آغاز اسلام کی نمایاں شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تو آپ مہاجرین کے قائد تھے۔ شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں آپ کی تقریر ادب کا شہ پارہ اور

 اسلام کا خلاصہ تصور کی جاتی ہے۔ جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ اسی جنگ میں شہادت پائی اور نبی اکرم صلی اللہ

 علیہ و آلہ وسلم نے طیار ’’تیز اڑنے والا، جنت کی طرف‘‘ کا لقب مرحمت۔ شرکینِ مکہ کی ستم آرائیوں سے تنگ آکر جب مس

لمانوں کی جماعت نے حبش کی راہ لی تو حضرت جعفرؓ بھی اس کے ساتھ ہو گئے؛ لیکن قریش نے یہاں بھی چین لینے نہ دیا، نجاشی

 کے دربار میں مکہ سے گراں قدرتحائف کے ساتھ ایک وفد آیا اوراس نے درباری پادریوں کوتائید پر آمادہ کرکے نجاشی سے 

درخواست کی کہ"ہماری قوم کے چند ناسمجھ نوجوان اپنے آبائی مذہب سے برگشتہ ہوکر حضور کے قلمرو  حکومت میں چلے آئے 

ہیں، انہوں نے ایک ایسا نرالا مذہب ایجاد کیا ہے جس کو پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، ہم کو ان کے بزرگوں اوررشتہ داروں نے بھیجا 

ہے کہ حضور ان لوگوں کو ہمارے ساتھ واپس کر دیں،درباریوں نے بھی بلند آہنگی کے ساتھ اس مطالبہ کی تائید کی،نجاشی نے 

مسلمانوں سے بلا کر پوچھا کہ وہ کون سانیا مذہب ہے جس کے لیے تم لوگوں نے اپنا دین ترک کر دیا   اس موقع پرُمسلمانوں نے 

نجاشی سے گفتگو کے لیے اپنی طرف سے حضرت جعفر ؓ کو منتخب کیا،انہوں نے اس طرح تقریر کی

بادشاہ سلامت!ہماری قوم نہایت جاہل تھی،ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے،بدکاریاں کرتے تھے،رشتہ داروں

 اورپڑوسیوں کو ستاتے تھے،طاقت ورکمزوروں کو کھاجاتا تھا، غرض! ہم اسی بدبختی میں تھے کہ خدا نے خود ہی ہماری جماعت 

میں سے ایک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھیجا، ہم اس کی شرافت،راستی،دیانت داری اورپاکبازی سے اچھی طرح آگاہ ھے،اس نے ہم کو شرک وبت پرستی سے روک کر توحید کی دعوت دی،راست بازی، امانت داری، ہمسایہ اوررشتہ داروں سے محبت کاسبق ہم کو سکھایا اورہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں،بے وجہ دنیا میں خونریزی نہ کریں،بدکاری اورفریب سے بازآئیں،یتیم کا مال نہ کھائیں،شریف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں،بت پرستی چھوڑدیں،ایک خدا پر ایمان لائیں، نماز پڑھیں،روزے رکھیں، زکوٰۃ دیں،ہم اس پر ایمان لائے اوراس کی تعلیم پرچلے -ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا،صرف ایک خدا کی پرستش کی،اورحلال کو حلال اورحرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستی اورجاہلیت کے برے کاموں میں مبتلا کرنا چاہا، یہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کی حکومت میں چلے آئے۔نجاشی نے کہا تمہارے نبی پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کو کہیں سے پڑھ کر سناؤ، حضرت جعفر ؓ نے سورۂ مریم کی چند آیتیں تلاوت کیں تو نجاشی پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی اس نے کہا خدا کی قسم !یہ اور تورات ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں اورقریش کے سفیروں سے مخاطب ہوکر کہا واللہ! میں ان کو کبھی واپس جانے نہ دوں گا۔تمام افراد

چھ سال بعد تک حبشہ ہی میں رہے،7ھ میں وہ حبش سے مدینہ آئے،یہ وہ زمانہ تھا کہ خیبر فتح ہو گیا تھا اور مسلمان اس کی خوشی 

منا رہے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دور افتادہ بھائیوں کہ واپسی کی دوہری خوشی حاصل ہوئی،حضرت جعفر ؓ سامنے آئے تو 

آنحضرت ﷺ نے ان کو گلے سے لگایا اورپیشانی چوم کر فرمایا، میں نہیں جانتا کہ مجھ کو جعفر کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا 

خیبر کی فتح سے۔ حضرت جعفر ؓ کی واپسی کو ابھی ایک سال بھی گذرنے نہ پایا تھا کہ ان کے امتحان کا وقت آگیا۔

غزوۂ موتہ کا دشمن اسلام  کی جانب سے آغاز ہو رسول ﷺ حضرت جعفرؑ سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے غزوہ 

بدر سے ملنے والے مال غنیمت میں سے حضرت جعفرؑ کا حصہ الگ کرلیا تھا، حالانکہ حضرت جعفرؑ اس جنگ میں شریک نہیں تھے، اور حبشہ میں قیام پذیر تھے۔ رسول خدا ﷺ غزوہ خیبر میں یہودیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کے بعد خیبر سے مدینہ تشریف فرما ہوئے تو حضرت جعفرنے آپ ﷺ کا استقبال کیا، جو حبشہ سے واپس آچکے تھے، ان سے معانقہ کیا، ان کی دو آنکھوں کے درمیان پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: “خدا کی قسم! سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے فتح خیبر پر زیادہ خوش ہونا چاہئے یا جعفرؑ کی ملاقات پر؟“۔

فتح خیبر کے اور حضرت جعفرؑ کی حبشہ سے واپس کے بعد آپ ﷺ نے جمادی الاول 8؁ھ میں حضرت جعفرؑ کو سپاہ اسلام کے 

امیر اول کی حیثیت سے “موتہ” کی جانب روانہ کیا تا کہ مشرقی روم کی فوج کا مقابلہ کریں۔ (کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ زید بن 

حارثہؓ امیر اول تھے اور جعفرؑ امیر ثانی جناب جعفر بن ابی طالبؑ نے جنگ میں شجاعت و بہادری کے وہ کمالات دکھائے کہ  دشمن 

کے تکبر و غرور کا تخت الٹ دیا۔ طبری لکھتے ہیں:

حضرت زید بن حارثہؓ کی شہادت کے بعد حضرت جعفرؑ فورا آگے بڑھے اور اپنے گھوڑے سے اتر ے  اور علم کو تھام کر پیادہ ہی لڑنا 

شوع کر دیا۔ آپ نے اس جنگ میں بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے۔ بخاری کی ایک روایت کے مطابق نوے زخم کھائے۔ دشمن سے لڑتے لڑتے پہلے آپ کا دایاں بازو کٹا تو آپ نے اسے اپنے بائیں ہاتھ سے تھام لیا اور جب دشمن نے آپ کے بائیں بازو پر وار کیا تو آپ نے کٹے ہوئے بازووں سے اسے سہار لیا اور آخری دم تک جان فشانی سے لڑتے رہے اور آپ کو ’’ذوالجناحین‘‘ (دو پروں والا) لقب ملا۔ عبد الله بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اس جنگ میں شریک تھا ہم نے جعفر بن ابی طالب کو ڈھونڈ وہ شہداء میں تھے اور ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں سے لگے ہوئے نوے زخم تھے اور ایک زخم بھی پشت پر نہیں تھا-ابوالفرج اصفہانی نے لکھا کہ: اولاد جناب ابو طالبؑ میں اسلام کے سب  سے  پہلے شہید جعفر بن ابی طالب تھے)

شیخ صدوقؒ نے روایت کی ہے کہ:

“پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جعفرؑ کی شہادت کی خبر سن کر بہت غمگین ہوئے اور آپؑ کے گھرانہ کے پاس تشریف لائے

 ۔ آپؑ کے بچوں کو گود میں لیا اور ان پر شفقت فرمائی اور فرمایا:” خدا جناب جعفر کو دو کٹے ہوئے ہاتھوں کی بدلے میں دو پر عطا

 کریگا جس کے ذریعہ وہ جنت میں پرواز کرینگے، اسی لئے جناب جعفر ’’ذوالجناحین‘‘ سے مشہور ہیں۔ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر