حضرت بابا بلھے شاہ کے والد کا نام سخی شاہ محمد درویش تھا جن کا خاندانی سلسلہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے جاملتا تھا۔ حضرت بلھے شاہ کے اجداد چوتھی صدی میں حلب سے ہجرت کرکے اُچ گیلانیاں میں آباد ہوگئے تھے۔ اُچ گیلانیاں بہاولپور کی تحصیل شجاع آباد کی سب تحصیل جلال پور پیر والا میں واقع ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت بلھے شاہ کے والد ایک متقی درویش تھے اور اچ گیلانیاں کی مسجد کے امام تھے ۔ روایت ہے کہ بعض برے حالات کی وجہ سے وہ اچ گیلانیاں سے نقل مکانی کر کے ملک وال چلے گئے۔ وہاں بھی ان کی درویشی اور صوفیانہ مسلک کی وجہ سے انہیں امام مسجد بنادیا گیا۔ انہوں نے وہاں مذہبی اور روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا۔ روایت ہے کہ موضع پانڈو کے کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی ملک وال میں بیاہی ہوئی تھی وہ ملک وال میں حضرت بلھے شاہ کے والد سید سخی سے ملا۔ ان کی پرہیز گاری اور معزز شخصیت سے متاثر ہوکر ان سے درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کے مسجد کے امام بن جائیں کیونکہ وہاں کوئی سید نہیں ہے۔ پانڈو خاں کی اس فرمائش پر حضرت بلھے شاہ کے والد پانڈو کے میں بمعہ خاندان کے منتقل ہوگئے
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھی جبکہ دوسرے یہ اصرار کرتے ہیں کہ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت بلھے شاہ کے مرشد حضرت شاہ عنایت نے ایک کتاب نافع السالکین مرتب کی تھی جس میں بلھے شاہ کے بارے میں قدرے تفصیلی نوٹ ہے جس کے مطابق حضرت بلھے شاہ کی پیدائش اچ گیلانیاں میں ہوئی تھیں۔
حضرت عنایت شاہ سے حضرت بلھے شاہ کا تعلق بہت قریبی تھا اس لئے ان کے ورشن کو قبول کرنے میں کوئی تعرض نہیں ہوناچاہئے۔ ڈاکٹر لاجونتی راما کرشنا نے اپنی کتاب پنجابی صوفی شعرا میں اوسبورن کی بیان کردہ تواریخ پر اعتماد کیا ہے۔ یہی غلطی تاجونتی راما کرشنا نے بلھے شاہ پر اپنے مضمون میں کی ہے۔اس نے بھی غالباً اوسبورن کا مضمون نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے حضرت بلھے شاہ کی عمر کے تعین کے بارے میں اردو کے اہم محقق مولوی محمد شفیع کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے ایک پرانامسودہ تعویذات اور فالناموں وغیرہ کے بارے میں دیکھا ہے جس کی تحریر میں حضرت بلھے شاہ کی اجازت بھی شامل ہے
بلھے شاہ نے اپنی زندگی میں اورنگزیب عالمگیر کی تنگ نظری دیکھی، قصور کے حاکم حسین خان خویشگی اور اس کے مذہبی رہنما شہباز خان کی چیرہ دستیاں برداشت کیں۔ اپنے ہی مہربان مولوی محی الدین کی زبان سے قوالی کے خلاف فتویٰ سنا پھر ان کو پچھتا کر فتویٰ واپس لیتے دیکھا۔ شہر بدری کے احکام سنے، دوسروں کے ڈیروں پر زندگی کے مشکل دن بھی کاٹے۔لاہور اور قصور کو بار بار تباہ ہوتے دیکھا۔ سکھ جہادی بندہ بہادر کی تباہیوں کا تجربہ کیا اور پھر بندہ بہادر کے بیٹے کو اسی کی گود میں بٹھا کر اس کے ہاتھوں سے بوٹی بوٹی کروانے کی دردناک داستان سنی، اپنے زمانے کے ہر بادشاہ کے ہاتھوں سگے بھائیوں اور بھتیجوں کے قتل ہونے کا بار بار دہرایا جانے والا ڈرامہ دیکھا، بیٹے کو باپ اور بیٹی کو ماں کے خلاف سازشوں میں ملوث پایا اور زمانے کے اسی الٹ پلٹ ہوتے شب و روز میں
زندگی کا راز پایا۔اور کہہ اٹھے
الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے
کاں لگڑنوں مارن لگے، چڑیاں جرے ڈھائے
پیوپتراں اتفاق نہ کائی، دھیاں نال نہ مائے
(الٹے زمانے آگئے ہیں اور اسی سے ہم نے سجن یا زندگی کا بھید پایا ہے۔ زمانے اتنے بدلے ہیں کہ کوے الٹا شکاری پرندوں کو مار رہے ہیں اور چڑیوں نے شہبازوں کو فتح کر لیا ہے۔ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں ہے اور مائیں بیٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔)وہ زندگی میں ہر جگہ کشمکش دیکھتے ہیں۔ وہ انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ جاری جنگ کو حلوائی کی دکان پر رکھی مٹائیوں کی ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں
لیکن بلھے شاہ اس کشمکش کے راز سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہتے ہیں۔
کتے رام داس کتے فتح محمد ایہوقدیمی شور
نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا وچوں نکل پیا کوئی ہور
ان کی جسمانی موت پر ملاؤں نے ان کا جنازہ پڑھنے سے انکار کر کے ان کے امر ہونے پر مہر تصدیق کر دی۔ بلھے شاہ نے تو خود کہا تھا ’بلھے شاہ اسیں مرنا نا ہیں گور پیا کوئی ہور‘ (بلھے شاہ ہم مرنے والے نہیں، قبر میں کوئی اور پڑا ہے)۔
جہاں تک حضرت بلھے شاہ کی جائے پیدائش کا تعلق ہے اس بارے میں دو ورشن ہیں۔ اوسبورن اور لاجونتی راما کرشنا کے نزدیک بلھے شاہ پانڈو کے میں پیدا ہوا تھا۔ پانڈو کے میں بلھے شاہ کے ڈیرے پر قابض 103 سالہ متولی درباری بیانی ہے کہ اس کے اجداد بلھے شاہ کے والد سخی شاہ کے مرید تھے وہ جھنگ کے رہنے والے تھے۔ان کی حضرت بلھے شاہ کے والد سے ملاقات ملک وال میں ہوئی تھی، وہ پشت در پشت بلھے شاہ کے خاندان سے منسلک رہے ہیں پہلے وہ قصور میں حضرت بلھے شاہ کے مزارکے مجاور تھے جہاں سے محکمہ اوقاف نے انہیں بے دخل کردیا تھا اور وہ وہاں سے پانڈو کے آگئے تھے۔اس نے بڑے وثوق سے بتایا کہ اس کی خاندانی روایت کے مطابق حضرت بلھے شاہ اس کی دو بہنوں کی ولادت پانڈو کے میں ہوئی تھی۔ اس نے حضرت بلھے شاہ کی ابتدائی زندگی کی کرامتوں کو پانڈو کے حوالے سے بیان کیا جبکہ یہی باتیں اُچ گیلانیاں کے حوالے سے بھی بیان کی جاتی ہیں-
۔پانڈو کے لاہور سے 28 کلو میٹردور قصور کی طرف جاتی ہوئی سڑک سے دائیں جانب چار پانچ کلو میٹر اندر واقع ایک چھوٹا سا گاﺅں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا حضرت بلھے شاہ کے زمانے میں ہوگا، آج بھی لوگ کھیتوں کی منڈیروں پر بیکار بیٹھے ہوتے ہیں یا نوجوان مویشی چراتے ہیں۔ گاﺅں کے وسط سے قدرے ہٹ کےحضرت بلھے شاہ کا موروثی گھر ہے جس کی شکل بدلی ہوئی ہے۔ایک بڑا سا طویلہ ہے جسے دو تین کمروںمیں تقسیم کیا گیا ہے اس میں 103 سالہ متولی درباری رہتا ہے جو بلھے شاہ کے خاندان کے بارے میں بہت سی کہانیاں بیان کرتا ہے جو اس نے بڑوں سے سنی تھیں۔
اللہ مغفرت فرمائے با با بلھے شاہ کی آمین
اس دنیا نے بلّھے شاہ کی صلاحیتوں کو پہچانا نہیں -وہ صوفی منش شاعر اور درویش تھے جن کا کلام آج بھی لاکھوں دلوں پر راج کر رہا ہے
جواب دیںحذف کریں