ہفتہ، 4 فروری، 2023

رام باغ آرام باغ کیسے بنا ؟

کراچی کے قدیم رام باغ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ باغ 1939 میں ایک مخیر ہندو شخص دیوان جیٹھانند نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ  باغ اب بھی سوامی نارائن مندر کے قریب برنس روڈ پر موجود ہے۔-لیکن تقسیم برّصغیر کے بعد اس کا نام آرام باغ ہو گیا ہے -تقسیم سے قبل  کراچی میں مسلمانوں اور دوسری قومیتوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس وقت کے مستند لکھنے والوں نےاپنی تحریروں میں لکھا  کہ کراچی کے ہندو و مسلمان باہم مل جل کے رہتے تھے اور دونوں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ ماہ محرم میں شیعہ مسلمان کراچی کی سڑکوں پر تعزیوں اور علم کے جلوس نکالتے تھے اور ہندو دسہرے کے تہوار میں نہایت دھوم دھام سے کالی مائی کا جلوس نکالتے تھے۔جبکہ پارسی قوم بھی آزادی سے اپنی عبادت گاہ فائر ٹیمپل پر جاتی تھی-سکھوں کو اپنی عبادت گاہ گردوارے جانے میں کسی دقّت کا سامنا نہیں تھا-  

"رام باغ" کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ کراچی کا ایک پرانا تفریحی باغ اور گراؤنڈ ہے۔ اس کے کچھ حصے پر سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں ہیں۔ یہ قیام پاکستان سے قبل ہندوؤں کے مذہبی اجتماعات کے لیے مخصوص تھا تاہم یہاں کبھی کبھی سیاسی جلسے بھی منقعد ہوتے تھے۔ اس باغ کے بارے میں ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ رام نے ہنگلاج (بلوچستان) جاتے ہوئے یہاں ایک رات قیام کیا تھا۔  مُنشی لام پرشاد ماتھُر کی کتاب "ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت" کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ'رام رام رام' کے عنوان سے  "ہندوؤں نے پاک نام اور دعائے خیر کو بات بات پر ملانے کی کوشش کی ہے۔ مثلاََ دو شخص مل کر "جے رام جی" یا "جے شری کرشن" کرتے ہیں۔ یعنی فتح یا بھلا ئی کی دعا کر کے بے غرضانہ طور پر اِس کو رام یا کرشن کو ارپن کر دیتے ہیں اور ذاتی نفع کی خواہش معیوب سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ صرف رام رام ہی کہہ دیتے ہیں جس میں اِس بے غرضی کا ذکر بھی نہیں ہونے پاتا۔ اگر تکلیف ہوتی ہے تو "ہائے رام" اگر خوشی ہوئی تو رام نے سُن لی، یا رام نے دَیا کی کہتے ہیں۔ بلکہ نفرت کے وقت بھی 'رام رام رام' کہنے لگتے ہیں"

۔ رام کا کردار ہندو مذہب میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ نامور قانون دان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین امر ناتھ موٹو مل نے ہمیں اس حوالے سے بتایا کہ شری رام اپنے والد راجا دسرتھ کی بڑی اولاد تھے اور دسرتھ کے بعد تاج کے حقدار تھے۔ رامائین کے مُطابق ایک بار جب راجا دسرتھ جنگل میں شکار کر رہے تھے تو ایک سانپ نے اُنھیں ڈس لیا۔ اس موقع پر رام کی سوتیلی ماں رانی کیکئی نے اُن کی جان بچائی۔ راجا نے اس کے صلے میں رانی کو کہا کہ وہ کیا مانگنا چاہتی ہیں۔ رانی نے راجا کو کہا کہ وہ اس وقت کُچھ نہیں چاہتی لیکن وقت آنے پر راجا کو اس کے دو وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ راجا نے حامی بھرلی۔ جب راجا دسرتھ مرنے کے قریب تھا اور اُس نے اپنے بڑے بیٹے رام کو راجا بنانا چاہا تو رام کی سوتیلی ما ں نے راجا کو اپنے وعدے یاد دلائے-

 رانی نے راجا سے کہا کہ "رام" کے بجائے اُس کے بیٹے "بھرت" کو راجا بنائے اور "رام" کو چود ہ سال کے لیے بن واس (جنگل بدری) بھیج دے۔ راجا دسرتھ نے نہ چاہتے ہوئے بھی رانی کی دونوں خواہشیں پوری کیں۔ رام نے ایک فرماں بردار بیٹا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے باپ کے حُکم پر تخت و تاج چھوڑ کر جنگل کی راہ لی۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ رام نے چودہ سال جنگل میں گذارے۔ راون سے جنگ لڑی اور کامیاب ہوکر چودہ سال بعد واپس اپنے وطن لوٹا۔ اس موقع پر رام کی آمد کی خوشی میں دیپ جلائے گئے۔ اس تہوار کو دیپا والی کہا جاتا تھا۔ جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دیوالی بن گئی۔ رام کی قربانی، فرماں برداری اور راون کو شکست دینے کی کہانی کو دسہرے کے تہوار کے دوران منایا جاتا ہے۔ تقسیم سے قبل اوراس کے بعد بھی کراچی میں رام لیلا کی کہانی اسٹیج پر پیش کی جاتی تھی۔ کراچی میں یہ کہانی رام باغ میں پیش کی جاتی تھی۔ جس میں رام کے بن واس (جنگل بدری) جانے اور واپسی تک کے تمام مراحل کو ڈرامائی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔-

اور اس اسٹیج ڈرامے کو دیکھنے لئے آنے والےتماشائیو ں سے رام باغ بھر جایا کرتا تھا -اب اس باغ کے اطراف فرنیچر مارکیٹ، جوسر، پنکھے، واشنگ مشینیں ٹھیک کرنے والے کاریگر اور دیگر اشیاء مثلاً ریڈی میڈ گارمنٹس- کپڑوں کی رنگ سازی اور فوم وغیرہ کا کاروبار پھل پھول رہا ہے -اور اس تمام گہما گہمی کے باوجودآج بھی پچھتّر سال گزرنے کے بعد بھی آرام باغ اپنی آغوش وا کیئے ہوئے ہر آنے جانے والے کو پناہ میں لینے کا منتظر نظر آتا ہے ۔-

تقسیم سے پہلے شہر میں تانگے چلتے ہیں جن میں سواری کے لئے آگے کی طرف اور پیچھے کی طرف نشست کا انتظام ہوتا ہے  اور آرام باغ کے اطراف کی سڑکوں پر ٹرام سروس جو انگریز بہادر نے بنوائ ہے ہر چند منٹ کے وقفہ سے شہریوں کے نقل و حمل کے کام آتی ہے اور اس وقت کے عروس البلاد کراچی کی گھوڑا گاڑیاں دوسرے شہروں سے اپنی خوبصورتی کے باعث ہمیشہ ممتاز آتی ہیں  آرام دہ نشستیں، سواریوں کے لئے آمنے سامنے بیٹھنے کا انتظام ،سر پر دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ، گاڑی بان کی نسبتا اونچی نشست اور ساتھ ہی تیل سے جلنے والے دو لالٹین روشنیوں کے شہر کی انفرادیت تھے-جبکہ انگریزوں نے اپنے خاندانو کے لئے بہترین لگژری گھواڑا گاڑیوں کا انتظام کر رکھاہےجنکو وکٹوریہ کہا جاتا ہے-

-اسی باغ کے ایک قطعہ زمین پر تقسیم ہند کے بعد یہاں کے شہریوں نے نہائت دیدہ زیب مسجد بنوائ ہے جسے اب آرام باغ والی مسجد کہا جاتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر