جمعہ، 3 فروری، 2023

دنیا کا عظیم ورثہ بشکل عجوبہ -دیوار چین-


چین کے شمال میں واقع 21 ہزار کلومیٹر طویل عظیم دیوار (دیوارِ چین) دنیا کے عجائبات میں شامل ایک عجوبہ ہے دیوارِ چین کو سنہ 1987 میں یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ دنیا بھر سے جب سیاح بیجنگ پہنچتے ہیں تو وہاں سے بسیں بھر بھر کر وہ طویل دیوارِ چین کے مختلف اہم مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔ سیاحوں میں سے چند عظیم دیوار کے اِس مقام پر بھی آتے ہیں جسے ’جیان کاؤ‘ کہا جاتا ہے۔دیوارِچین کا ’جیان کاؤ‘ نامی حصہ سبز پہاڑیوں کے اُوپر ایک کنگری دار خط کی طرح 20 کلومیٹر طویل علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ نیچے وادی سے یہ پہاڑ کی ہر چوٹی پر ایک سجاوٹی خط کی طرح نظر آتی ہے۔

دراصل یہ دیوار بنانے کی نوبت اس لئے پیش آئ کہ اس زمانے کے ملک چین کے دشمن بادشاہ آس پڑوس اپنی فوجیں لے کر آتے تھے اور چین کے باشندوں کا قتل کرتے اوربھاگ جاتے تھے-چنانچہ اس دیوار کی تعمیر سے دشمنوں سے بچاو کا انتظام کیا گیا -یہ دیوار حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت سے دو سو سال پہلے بنائ گئ

یہ بیجنگ کے شمال میں سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ لیکن یہ اپنے معروف ہمسایہ علاقوں، بڈالنگ اور میوٹیانیو، سے بالکل مختلف ہے۔اس علاقے میں نہ کوئی سووینیئر فروخت کرنے کی دکان ہے اور نہ ہی کافی کی مشہور دکان سٹاربکس ہے اور نہ ہی کوئی کیبل کار۔ نہ یہاں کوئی اس جگہ کی سیاحت کے لیے ٹکٹیں فروخت کرتا ہوا نظر آئے گا اور نہ ہی دیوار کے اِس حصے تک لے جانے والا کوئی ٹور گائیڈ۔-دیوارِ چین کے اس حصے تک جانے کے لیے آپ کو 45 منٹ تک پہاڑ پر چڑھنا ہو گا۔

دیوارِ چین کے جیان کاؤ والے حصے میں پہاڑ کے اوپر ایک سفید رِبن کی طرح نظر آنے والا 20 کلومیٹر لمبا کنگری دار خط۔ ہے۔ پندرھویں اور سولہویں صدی میں تعمیر ہونے والے دیوار کے اس حصے پر صدیوں تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔اس حصے سے منسلک سات کلومیٹر لمبی دیوار کافی خستہ حال ہو گئی تھی۔ طویل وقت گزرنے کی وجہ سے اس کے کئی مینار اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر اور کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے جبکہ دیوار کے کچھ حصے تو اس طرح منہدم ہو گئے یہ باقی بچ جانے والی دیوار پر بمشکل ایک شخص ہی چل سکتا تھا۔

درخت اور جھاڑیاں اس طرح اُگ آئیں تھیں کہ یہ دیوار فصیل کی بجائے ایک جنگل دکھائی دینے لگی تھی۔ اگرچہ یہ نظارہ بھی اچھا لگتا تھا لیکن یہ قدیم دیوار بہت خطرناک ہو چکی تھی۔ٹینیسیٹ چیریٹی فاؤنڈیشن، جس نے دیوارِ چین کے اس حصے کی بحالی کے کام کو سرانجام دیا ہے، کے پراجیکٹ مینیجر ما یاؤ کہتے ہیں کہ ’ہر برس ایک یا دو سیاح دیوار کے اس حصے پر چلتے ہوئے گر کر ہلاک ہوتے تھے۔ کچھ لوگ تو ہائیکنگ کرتے ہوئے گرتے اور ہلاک ہو جاتے۔ اور کچھ بجلی گرنے سے ہلاک ہوتے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں ممکنہ حد تک اس دیوار کی روایتی حالت بحال کرنے میں مدد دی۔

مزید حادثات کو روکنے کے لیے اور جیان کاؤ حصے کی دیوار کو مزید خستہ حال ہونے سے روکنے کے لیے اس کی بحالی کا کام سنہ 2015 میں شروع ہوا۔ یہ کٹھن کام، جو 750 کلومیٹر طویل دیوار کے اس حصے پر پھیلا ہوا تھا، سنہ 2019 میں مکمل ہوا۔جب یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ رہا تھا تو اس وقت موسم بہار کے ایک روشن دن میں ما کے ساتھ اس دیوار کے کام پر بات چیت کرنے لیے نشست کا موقع ملا۔

ہماری جہاں تک بھی نظر جا رہی تھی ہمارے ارد گرد فصیل نما دیواریں ہمیں گھیرے ہوئے تھیں۔ ما نے مجھے بتایا کہ ’آپ یہاں ان پہاڑوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ یہاں بھاری بھاری مشینیں نہیں لائی جا سکتی ہیں۔ ہمیں یہاں انسانوں سے کام لینا پڑا۔ لیکن ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال انسانوں سے یہ کام زیادہ بہتر کروانے کے لیے کرنا چاہیے۔‘سنہ 2019 میں اس منصوبے پر جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی اس میں خطے کی سہ جہتی (تھری ڈائی مینشنل) نقشہ بندی اور کمپیوٹر کا ایک ایلگورِدھم شامل تھا جو انجینیئروں کو یہ بتاتا تھا کہ انھیں کسی شگاف کی مرمت کے لیے وہاں اُگے ہوئے درخت کو نکالنا ہے یا صرف اس شگاف کو بھر دینا ہے یا اس حصے کو محفوظ طریقے سے بغیر کچھ کیے چھوڑ دینا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرے کہ کبھی ان دیواروں پر جنگلی نباتات اُگ آئی تھیں۔

  دیوارِ چین ایک بہت بڑی تعمیر ہے۔ اس کی تاریخ بھی اسی کی طرح عظیم ہے۔ اس کی تعمیر میں دو ہزار برس لگے، تیسری صدی قبل مسیح سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک، اسے سولہ مختلف شاہی خاندانوں نے تعمیر کیا۔اس دیوار کی تعمیر کے سب سے لمبے اور سب سے زیادہ مشہور حصے کی تعمیر مِنگ خاندان کے زمانے میں ہوئی جنھوں نے دیوار کی تعمیر (یا تعمیرِ نو) سنہ 1368 سے لے کر سنہ 1644 کے درمیان کے عرصے میں کی جس میں جیان کاؤ نامی حصہ بھی شامل ہےحکومت کے آثارِ قدیمہ کے ایک ادارے ’سٹیٹ ایڈمنسٹریشن آف کلچرل ہیریٹیج اینڈ سٹیٹ بیورو آف سروے اینڈ میپنگ‘ نے بتایا کہ مِنگ دور کی دیوار 8851 کلومیٹر بشمول 6259 کلومیٹر طویل دیوار اور 359 لمبی خندقیں، 2232 کلومیٹر لمبی قدرتی رکاوٹیں اور 25 ہزار حفاظتی ٹاور اسی شاہی خاندان کے زمانے میں تعمیر ہوئے تھے۔

اس تعمیر میں ایک مقام سے لے کر دوسرے مقام بی تک صرف ایک دیوار کی تعمیر ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ اس میں سیڑھیاں، دوہری دیواریں، متوازی دیواریں اور دیواروں کی مہمیزیں بھی شامل تھیں۔آج مِنگ خاندان کی جانب سے تعمیر کردہ ایک تہائی فصیل کی تعمیر مٹ چکی ہے۔ 


تحریر و تلخیص سیّدہ زائرہ عابدی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر