جمعرات، 22 ستمبر، 2022

امسال بھی دو کروڑ سے اوپر عزادارو ں کی میزبانی کا شرف سرزمین کربلا نے پایا ہے

   پاکستان سمیت دنیا بھرسے زائرین کی اربعین پر کربلا میں ریکارڈ حاضری۔ہے اربعین کے مقاصد کیا ہیں-ظلم، استبدادی نظام حکومت کے خلاف سیسہ پلائ دیوار بن جانے کا نام اربعین ہے

حضرت امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے 2 کروڑ 11 لاکھ سے زائد زائرین کربلا پہنچے۔غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق عراق اور ایران کی بارڈر کراسنگ آرگنائزیشن کے ترجمان علاء الدین القیسی کا کہنا ہے اربعین کے اجتماع میں شرکت کے لیے 2 کروڑ11 لاکھ زائرین پہنچے ہیں۔اربعین میں زائرین کی تعداد 1438ہجری میں ایک کروڑ12لاکھ ، 1439ہجری میں ایک کروڑ 48لاکھ ، 1440ہجری میں ایک کروڑ 53لاکھ، 1441ہجری میں ایک کروڑ 52لاکھ، 1442ہجری میں ایک کروڑ 45لاکھ، 1443ہجری میںایک کروڑ 63لاکھ ،امسال یعنی1444ہجری میں2 کروڑ 11لاکھ98ہزار640رہی۔

گورنر کربلائے معلیٰ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ الحمد اللہ اس سال ہم نے 2 کروڑ سے زائد زائرین ابا عبداللہ الحسینؑ کی میزبانی کا شرف حاصل کیا ہے اور یہ شرکت اب تک کی ریکارڈ شرکت ہے ۔ امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کے چہلم کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ محسن انسانیت نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسینؑ کی ذات اور آپ کے اہداف آفاقی ہیں، دین اسلام کی سربلندی، انسانی عزت و شرف اور حقوق انسانی کی فراہمی و بحالی کی لہو رنگ جدوجہد امام عالی مقامؑ کی عظیم قربانی کی مرہون منت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں مختلف مکاتب فکر کے نہ صرف کروڑوں مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انتہائی عقیدت و احترام سے امام عالی مقامؑ اور ان کے باوفا اور جانثار ساتھیوں کی عظیم قربانی کی یاد مناتے ہیں۔

شیعہ علما کا کہنا ہے کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی دنیا بھر سے بلاتفریق مذہب و مسلک کروڑوں کی تعداد میں عقیدت مندوں کا سرزمین کربلا پر جمع ہوکر فرزند رسولؑ اور شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اگرچہ اس وقت انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے لیکن فرزند رسول سید الشہداءؑ کی ذات ان تمام اختلافات اور طبقات کی تقسیم سے بالاتر تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہے، اس لئے گذشتہ چودہ صدیوں سے انسانیت آپ کی ذات سے وابستہ رہنے کو اپنے لئے شرف اور رہنمائی کا باعث قرار دے رہی ہے اور بلا تفریق مذہب و مسلک اور خطہ و ملک آپ کے کردار سے استفادہ کررہی ہے۔

علما کے مطابق عزاداری کے پروگرام اور تقاریب فکر حسینی کی ترویج کا ذریعہ ہیں اور کسی مسلک و مکتب کیخلاف نہیں، پاکستان کے شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق اور شہری  آزایوں کا حصہ ہیں لہذا ان کو روکنا یا ان میں رکاوٹیں ڈآلنا کسی طور پر موزوں نہیں ہےۂۓرکہےحکومتوں کا فرض ہے کہ  اور ان کی آزادیوں کی حفاظت کریں۔ انہوں نے یہ بات زو ر دے کر سکہی کہ وحی الہی کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور یہ امت ایک امت ہے لہذا تمام مسالک کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اخوت، بھائی چارے، باہمی احترام، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ فرزند رسول سید الشہداءؑ کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشناہی حاصل کرکے اتحاد و وحدت، مظلومین کی حمایت، یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کی جائیں، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے کربلا جیسے معرکہ حق و باطل میں سرفراز و سربلند فرزند رسول سید الشہداءؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اتحاد و وحدت کے ذریعہ دشمنان اسلام و پاکستان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر اپنے زندہ و بیدار ہونے کا ثبوت دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرزند رسول سید الشہداءؑ کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشناہی حاصل کرکے اتحاد و وحدت، مظلومین کی حمایت، یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کی جائیں، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخ انسانی کے کربلا جیسے معرکہ حق و باطل میں سرفراز و سربلند فرزند رسول سید الشہداءؑ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے اتحاد و وحدت کے ذریعہ دشمنان اسلام و پاکستان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور سامراجی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر اپنے زندہ و بیدار ہونے کا ثبوت دیں۔حضرت زینب س اور حضرت امام سجاد ع نے اپنے خطبات اور حقائق کو بیان اور واضح کرنے کے ذریعے در اصل ایک مضبوط و مستحکم میڈیا کی مانند واقعہ کربلا کے مقاصد، اہداف، اُس کے مختلف پہلووں اور ایک انقلابی اور زندہ سوچ کو جہاں جہاں بھی انہیں موقع ملا پھیلا دیا 

ایک گھٹے ہوئے سیاسی ماحول کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُس تنگ و تاریک دور میں لوگوں میں اِس بات کی فرصت و جرأت نہیں ہوتی کہ اُنہوں نے جن حقائق کو سمجھا ہے اُسکے مطابق عمل کر سکیں ۔ اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اولاً ظلم و استبداد کی بنیادوں پر قائم حکومتی نظام اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ حقائق کو سمجھیں اور اگر لوگ اُس کی مرضی اور خواہش کے بر خلاف سمجھ بھی جائیں تو ظالم و مستبدانہ نظام حکومت اُنہیں اِس بات کی قطعی اجازت نہیں دے گا کہ جو کچھ اُنہوں نے سوچا اور سمجھا ہے اُسے عملی جامہ پہنا سکیں ۔

کوفہ اور شام جیسے شہروں میں جہاں سیاسی اصطلاح کے مطابق دباؤ اور گھٹن کا ماحول تھا اور کربلا سے اِن شہروں کے درمیانی راستے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضرت زینب س یا امام سجاد ع کی زبانی یا ان اسیروں کی حالت زار دیکھ کر بہت کچھ سمجھ گئے تھے لیکن کسی میں یہ طاقت و جرأت نہیں تھی کہ وہ ظلم و ستم کے اُس حکومتی نظام کے خلاف اور اُس سیاسی دباؤ کے دور میں جو کچھ اُس نے سنا اورسمجھا ہے اُسے اپنی زبان پر لائے! یہ واقعہ اور یہ تمام حقائق ایک پھندے کی صورت میں مومنین کے حلق میں پھنسے ہوئے تھے ۔ لیکن اِس احساس اور پھندے نے چہلم کے دن اپنا حصار توڑ دیا اور چشمہ بن کر کربلا میں پھوٹا ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر