ہفتہ، 3 ستمبر، 2022

حضرت اما م موسیٰ کاظم علیہ السّلام –جا نشین با ب علم

 

 

حضرت اما م موسیٰ کاظم علیہ السّلام –جا نشین  با ب علم

 آپ اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد خدا کے حکم اور آباو اجداد کی نسبت  سے امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ساتویں امام علیہ السلام ، عباسی خلفاء منصور، ہادی، مہدی اور ہارون کے ہم عصر تھے۔ آپ  علیہ السلام  تاریک اور مشکل دور میں خاموشی کے ساتھ (سخت تقیہ کی حالت میں کٹھن زندگی گزارتے رہے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام علم و تقویٰ میں اپنے والد گرامی کا   نمونہ تھے۔ آپ کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ آپکو جب بھی غصہ آتا تھا آپ غصہ کو پی جاتے تھے۔ اسی لئے آپ کا نام بھی کاظم پڑ گیا تھا۔ کاظم اس شخص کو کہتے ھیں جو غصہ کو پی جایا کرتا ہے۔-

آپ  کی علمی کا و شو ں  میں ایک حوزہ علمیہ تشکیل دیا جا  نا ہے-اور آپ  کی علمی شہر ت    ہر طرف پھیل گئی اور دور دور سے دانشمند اور علماء آپ کے پاس آنے لگے۔ یہ وہ چیز تھی جو اس وقت کے عباسی خلیفہ کے لئے سخت اور نا گوار تھی۔  اس نے چاروں طرف سے امام پر سختیاں کرنا شروع کر دیں حتی کی امام کے صحابی بھی خلیفہ کے ظلم و ستم سے محفوظ نھیں تھے۔ اسی لئے ایک دن امام نے اپنے ایک صحابی ہشام سے فرمایا تھا کہ موجودہ خطروں کے پیش نظر ہم سے متعلق گفتگو سے پرہیز کیا کرو۔ ہشام نے بھی خلیفہ کے مرنے تک امام کے اس حکم کا خیال رکھا تھا۔

امام نے غاصب اور ظالم حاکموں اور خلفا کے بارے میں فرمایا ہے۔: جو شخص بھی ظالم و جابر حاکم کا ساتھ دیتا ہے، اس کے کاموں سے خوش رہتا ہے وہ بھی اس ظالم حاکم کی ہی مانند ہے یعنی ظالم حاکم کے ساتھ وہ بھی جہنم میں جائے گا۔

۔ امام کے نزدیک اس وقت کی حکومت کی کسی بھی طرح حمایت کرنا شرعی طور پر حرام تھا۔ امام اس حکومت سے کسی بھی طرح کی مدد لینے سے بھی منع فرماتے تھے: ان ظالموں پر اعتماد نہ کرو اور ان سے مدد نہ حاصل کرو کہ اگر ایسا کروگے تو دوزخ میں ڈالے جاؤ گے البتہ امام نے اپنے قریبی ساتھیوں میں سے ایک علی بن یقطین کو بعض مصلحتوں کی بنا پر اس حکم سے آزاد رکھا تھا اور اسی لئے وہ ہارون رشید کی حکومت میں وزیر بھی تھے۔

شیعہ و سنی منابع آپ کے علم، عبادت، بردباری اور سخاوت کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ آپ کو کاظم اور عبد صالح کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ بزرگان اہل‌ سنت آپ کا ایک دین شناس ہونے کے عنوان سے احترام کرتے ہیں اور شیعوں کی طرح بعض اہل سنت بھی آپ کی زیارت کیلئے جاتے ہیں۔ آپ کا مزار آپ کے پوتے امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ شمال بغداد میں واقع ہے جو ہاس وقت حرم کاظمین کے نام سے مشہور مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔

علی بن یقطین سے ارون رشید کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور اپنی رعایا کے ساتھ ظلم و ستم نھیں دیکھے جاتے تھے۔ ایک دن وہ امام کی خدمت میں آئے اور ان سے اجازت چاہی کی وہ وزارت سے استعفیٰ دے دیں لیکن امام نے انھیں اس کام سے روک دیا اور فرمایا: ایسا مت کرو! تمھارے بھائی تمھاری وجہ سے عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ تمھارے اوپر فخر کرتے ہیں ممکن ہے تم ان لوگوں کے لئے کچھ کر سکو۔

اے علی! تمھارے گناہوں کا کفارہ یھی ھے کہ تم اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو۔ تم میرے سامنے ایک نیکی پیش کرو میں اس کے بدلے تمھارے سامنے تین نیکیاں پیش کرونگا۔ تم ہمارے کسی ایک شیعہ کی کوئی مشکل دور کرو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بدلے میں تمھیں خلیفہ کی قید و ظلم سے آزاد کرودوں گا۔ اس کی تلوار تم تک نہیں پہنچ سکے گی اور نہ ہی کبھی فقیری و غربت کا شکار ہوگے۔اے علی ! اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرتا ہے تو در حقیقت پہلے وہ خدا کو اس کے بعد رسول صلی  ا للہ  علیہ و الہ و سلم اور اس کے بعد ہمیں خوش کرتا ہے۔

آپ اہل تقیہ تھے اور اپنے شیعوں کو اسی کی وصیت کرتے جیسا کہ آپ نے مہدی عباسی کو اس کی ماں کی وفات پر تسلیت کا خط لکھا۔روایت کے مطابق جب ہارون نے آپ کو طلب کیا تو آپ نے فرمایا: حاکم کے سامنے تقیہ واجب ہے لہذا میں اس کے سامنے جا رہا ہوں۔ اسی طرح آپ آل ابی طالب کی شادیوں اور نسل کو بچانے کی خاطر ہارون کے ہدایات قبول کرتے۔۔ یہانتک کہ آپ نے علی بن یقطین کو خط لکھا کہ خطرے سے بچاؤ کی خاطر کچھ عرصہ کیلئے اہل سنت کے مطابق وضو کیا کرے۔

آخر کار جب ہارون الرشید حج کے لئے مدینہ گیا تو اس کے حکم سے امام ہفتم علیہ السلا م  کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب آپ مسجد نبوی کے اندر نماز میں مشغول تھے۔آپ کو زنجیروں میں جکڑ کر قید میں ڈال دیا گیا اور پھر مدینہ سے بصرہ اور بصرہ سے بغداد لے جایا گیا۔ اس طرح آپ کو کئی سال تک قید میں رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے میں منتقل کرتے تھے۔ آخر کار بغداد کے قید خانے میں سندی بن شاہک ملعون نے آپ کو زہر دے کر شہید کر دیا۔ آپ ”مقابر قریش“ میں جو اس وقت کاظمیہ (عراق) میں واقع ہے دفن کئے گئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر