حالیہ دنوں میں آنے والا سیلاب توآ کے چلا گیا ہے لیکن تباہی کی دلخراش داستانیں اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے -پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ ایک عرصہ دراز سے بلدیاتی نمائندگی سے محروم رکھّا گیا ہے جس کے سبب زیادہ تباہی نظر آ رہی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے قائد اعلیٰ طبیعت کے ناساز ہونے کے باوجود کئ ارب روپے اپنی مٹھّی میں دبائے چوروں کا بیوپار پوری تندہی سے کر کے کروڑوں روپئے اپنی اپنی پارٹی سے بے وفائ کرنے والوں
میں تقسیم کر کے اب دبئ کے عشرت کدے میں آرام فرما رہے ہیں اور پورا سندھ اپنی لاوارثی پرنوحہ کناں ہے'کتنے دکھ کا مقام ہے چار ارب روپے تو چوروں کی خریدو فروخت پر خرچ کرنے والے نے صرف اپنے شہر لاڑکانہ کی ہی حالت زار کو سنبھالنے میں خرچ کئے ہوتے تو اللہ میاں ان کے اعمال نامہ میں کیا کچھ نیکیاں لکھ دیتا-آئیے اب کچھ زکر ہو جائے پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات کا-تفصیلات کے مطابق سوات میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، کالام بازار اور ہوٹلز سیلابی ریلے میں بہہ گئے،
دکانیں اور 150 سے زائد مکانات بھی دریا برد ہو گئے۔کالام میں سب سے بڑا اور قیمتی ہوٹل بھی سیلاب کی زد میں آ کر گر گیا،
لوگ گرتے ہوٹل کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔سوات میں اب تک 10 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، سیلاب میں بحرین بازار بھی
ڈوب گیا ہے اور کئی رابطہ
پل بھی سیلاب میں بہہ گئے۔
سیلابی ریلا ہنی مون ہوٹل سمیت متعدد ہوٹلز ساتھ بہا کر لے گیا، سوشل میڈیا پر ہوٹل گرنے کے مناظر وائرل ہو گئے ہیں،
کالام بحرین میں متعدد پلوں سمیت 4 مساجد بھی شہید ہو گئے ہیں۔واضح رہے کہ سیلابی ریلے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،
مینگورہ بائی پاس میں بھی سیلاب کا پانی گھروں میں داخل ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔
سوات پولیس لائن میں بھی پانی داخل ہونے سے پولیس اہل کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے، عوام بے یارو مددگار حکومتی امداد کے
منتظر ہیں کئی گاڑیاں بھی سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہیں، اب بھی سوات کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے،
جس سے پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے
دوسری جانب بحرین اور کالام کے رہائشیوں اور سیاحوں کے لیے الرٹ جاری کر دیا گیا ہے، موسلادھار بارش کی وجہ سے سوات
میں سیلابی صورت حال ہے، ترجمان این ایچ اے نے کہا کہ سیاح اور مقامی افراد غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔این ایچ
اے نے کہا ہے کہ این 95 اور این 90 پر بحرین سے کالام سیکشن تک صورت حال تشویش ناک ہے، سیلاب نے بحرین پل کے
ساتھ ساتھ اپروچ روڈ کو بھی متاثر
کیا ہے۔
دریائے سوات میں سیلاب میں بہتی عمارتیں-’سیلاب تو اپنی جگہ تھا لیکن ساتھ پانی کے ساتھ ایک بڑا پتھر بھی آیا جس نے ہوٹل
کی عمارت کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا اس کے بعد عمارت اوپر سے گری ہے لیکن اب بھی انھیں امید ہے کہ ہوٹل کی عمارت کافی حد
تک بچ گئی ہے۔‘یہ کہنا ہے کالام میں نیو ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری کا جن کے ہوٹل کے گرنے کی ویڈیو سوشل
میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔یہ ہوٹل دریا کے اندر ہی تعمیر کیا گیا تھا، اس ہوٹل کو پہلی مرتبہ نقصان نہیں پہنچا بلکہ 2010 کے
سیلاب میں بھی اس ہوٹل کی عمارت کو سخت نقصان پہنچا تھا۔اسی لیے آپ جہاں بھی جائیں ان علاقوں میں ہوٹل اور تفریحی
مقامات کے علاوہ دکانیں بھی دریا کے کنارے تعمیر کی جاتی ہیں- بحرین کا ذکر کریں جو ایک چھوٹا سا علاقہ ہے یہاں دریا کے
ساتھ ساتھ تقریباً تمام ہوٹل دکانیں اور مکانات کو یا تو نقصان پہنچا ہے اور وہ یا مکمل طور پر دریا برد ہو چکے ہیں۔
ہمایوں شنواری نے یہ ہوٹل 1992میں قائم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھیں کسی نے نہیں کہا تھا کہ یہاں ہوٹل کی تعمیر
منع ہے ہمیں باقاعدہ اس وقت قائم ملاکنڈ ڈویژن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اجازت نامہ جاری ہوا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب
کالام میں کچھ نہیں تھا، سیاحت بہت کم تھی اور انھوں نے وہاں انوسٹمنٹ کی تھی۔ ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری نے
بی بی سی کو بتایا کہ جو سیاح آتے ہیں وہ ایسے ہوٹل کو پسند کرتے ہیں جو دریا کے اندر ہو یا کم سے کم دریا کے قریب تر ہوں۔ان سے
جب کہا گیا کہ دریا کے اندر ہوٹل تعمیر نہیں کیے جا سکتے یہ ماحولیات کے خلاف ہے اور پانی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے
مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کے لیے تمام اقدامات کیے تھے۔ اس جگہ دریا کا کافی وسیع رقبہ ہے اور
انھوں نے
پہلے نہیں سنا تھا کہ اتنا شدید سیلاب کبھی اس علاقے میں آیا ہو۔
اپر سوات کے علاقے مدین میں دریائے سوات سے آنے والے پانی کی وجہ سے اونچے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے۔ انتظامیہ نے
مقامی لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایات دی ہیں۔اس ویڈیو میں دریائے سوات کے کنارے پر موجود عمارتوں کو
دریا میں بہتا دیکھا جا سکتا ہے- کالام تک سڑک کے ذریعے رسائی نہیں لیکن وہاں سے اطلاعات ہیں کہ بحرین سے زیادہ نقصان
کالام میں ہوا ہے ۔ سوات میں 46 پُل اور 13 بجلی کے پول کو نقصان پہنچا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نقصان اس
سے کہیں زیادہ
ہوا ہے۔
ہوٹل مالکان
کا کہنا ہے کہ ان کی تعمیرات دریا سے دور تھیں اس مرتبہ سیلاب کا ریلا ہی زیادہ
تھا جس وجہ سے تباہی ہوئی ہے۔
بحرین میں ایک ہوٹل کے مالک وقار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہوٹل دریا کے اندر کیوں تعمیر کیا تھا تو
انھوں نے یہی جواب دیا کہ ہوٹل تو دریا سے دور تھا ہوٹل اور دریا کے درمیان پارکنگ ایریا تھا اور ایک ریسٹورنٹ بھی تھا لیکن
پانی تو ہوٹل کی تیسری منزل تک آیا۔مقامی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ دریا اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو خود ہی ہٹا دیتا ہے۔
ماضی میں بھی ایسا ہی دیکھا گیا ہے کہ جہاں
تجاوزات کی گئی ہیں وہ سیلاب سے تباہ ہوئی ہیں۔ اللہ پاک سب پر کرم کرے آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں