۔قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں، 'اکتوبر 1981 میں لندن میں وہاں کے ایک مشہور رسالے نیو اسٹیٹسمین (New Statesman) کا ایک شمارہ میری نظر سے گزرا۔ اس کے سرورق پر آغا حسن عابدی کی بڑے سائز کی رنگین تصویر چھپی تھی جس کے نیچے یہ کیپشن درج تھا: ہائی اسٹریٹ کا بینکر، جو حکومتیں خرید لیتا ہے۔'رسالے کے اندر بی سی سی آئی کے تعلق سے آغا حسن عابدی کے بارے میں چار صفحات کا طویل مضمون بھی درج تھا۔ مضمون کا فقرہ فقرہ حسد، رقابت، خوف اور نفرت کی بھٹی میں بجھا ہوا تھا، جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ صاحب مضمون کے مطابق بی سی سی آئی ایک ایسا بینک تھا جو خطرناک تیز رفتاری سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا تھا۔'قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: 'بی سی سی آئی کی ترقی اور وسعت کی یہ تیز رفتاری انگلستان کے اونگھتے ہوئے سست رو، سرد مہر، بے حس اور سرخ فیتوں میں جکڑے ہوئے غیر مثالی بینکوں کے لیے ایک زبردست خطرے کا نشان بن گئی تھی۔'وہ مزید لکھتے ہیں: 'یہ مضمون پڑھ کر مجھے کرید لگ گئی کہ میں آغا صاحب سے مل کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ ان کی ترقی کا اصل راز کیا ہے۔
انھوں نے شہاب نامہ میں آغا حسن عابدی سے ہونے والی ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مطابق ادارے کی انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان رشتہ ایسا تھا کہ ہر فرد خود کو ادارے کا فعال رکن تصور کرتا تھا۔ادارے کے زیر انتظام نہ صرف متعدد فلاحی ادارے کام کر رہے تھے بلکہ ادارہ کے ہر کارکن کو ہر برس پورے سال کی تنخواہ کی ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد تک اضافی رقم بھی اس شرط پر ادا کی جاتی تھی کہ وہ اسے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرے گا بلکہ دوسروں کے کام میں لائے گا۔تاہم کوئی ملازم اس شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے، اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ معاملہ ہر شخص کے اپنے ضمیر اور اعتماد پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا مگر پھر اس کی یہی ترقی اور فلاحی کام بین الاقوامی اداروں کی نظر میں کھٹکنے لگے۔کمیں مالیاتی شعبے کے حوالے سے جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ایک ہی نمایاں ترین نام ہوگا اور وہ نام ہے آغا حسن عابدی کا۔ آغا صاحب نے دو بڑے بینکوں کی بنیاد رکھی اور دونوں کو کامیابی کے عروج تک پہنچایا۔ ایک بینک کی کامیابی کو اچھی قسمت کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن جب اس بینک کو قومیا لیا گیا تو ایک دوسرے بینک BCCI کی بنیاد رکھی اور اس کو نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی زبردست کامیابی نصیب ہوئی۔
آغا حسن عابدی 14؍مئی 1922ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہی حاصل کی اور لٹریچر میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے بینکنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور حبیب بینک بمبئی میں شمولیت اختیار کرلی،ان کی محنت اور ذہانت کے باعث اس بینک نےنمایاں مقام حاصل کرلیا، پاکستان بننے کے بعد بھی اس بینک سے ہی منسلک رہے۔ 1957ء میں انتظامیہ سے کچھ اصولی اختلاف پر حبیب بینک چھوڑ دیا اور اپنا ایک بینک قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے اور یوں 1959ء میں یونائیٹڈ بینک کے نام سے ایک بینک قائم کیا جس نے ایک مختصر عرصے میں نمایاں مقام حاصل کرلیاجس کی 600سے زائد شاخیں ملک بھر میں اور ایک درجن سے زائد بین الاقوامی سطح پر کام کرنے لگیں جو بعدمیں دوسرا بڑا بینک بن گیا۔آغا حسن عابدی ایک دوراندیش اور اپنے شعبے کے ماہر تھے۔ انہوں نے پاکستان میں بینکوں کے قومی تحویل میں لئے جانے سے پہلے ہی ایک بین الاقوامی بینک کھولنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی اور لکسمبرگ میں اس کا ہیڈ کوارٹر قائم کرلیا تھا1974ء میں جب بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اس بین الاقوامی بینک پر مرکوز کردی اور اس کا نام BCCI رکھا۔ اس بینک کو آغا صاحب نے ایک بڑا بینک بنانے کیلئے انتھک محنت کی اور بہترین افراد کو اپنے ادارے میں جمع کیا۔
اس بینک نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ 15؍سال کے عرصے میں یہ بینک نجی شعبے میں قائم دنیا بھر کے بینکوں میں 7؍ویں نمبر پر پہنچ گیا۔آغا صاحب نے 70ء کی دہائی میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بطور ٹرینی آفیسر بھرتی کیا جو آج بھی ملک کے مختلف بینکوں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کررہے ہیں۔وہ ایک خوشگوار اور طلسماتی شخصیت کے مالک،ایک خوش اخلاق اور انسان دوست شخص تھے، اپنے اداروں میں کام کرنے والوںسے عزت سے پیش آتے تھے خواہ وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو۔ ان کا رویہ ایک اعلیٰ ترین شخصیت سے لے کر تمام ورکرز تک یکساں ہوتا تھااور ایک وضعدار شخصیت تھے۔ گو کہ عابدی صاحب کا تعلق مالیاتی شعبے سے تھا لیکن ان کو زندگی کے مختلف شعبوں کو درپیش مسائل کا بھی ادراک تھا اس لئے وہ ان شعبوں کو درپیش مسائل کے حل میں خصوصی توجہ دیتے تھے ۔
وہ ایک بہترین منتظم تھے اور لوگوں کے ساتھ اصولوں کی بنیاد پر تعلقات استوار رکھتے تھے۔ وہ انکساری اور ہمدردی کا ایک پیکر تھے۔ وہ انتظامی امور پر بات چیت کے ساتھ ساتھ شیکسپیئر، غالب، خلیل جبران کے اقوال کا اپنی گفتگو کے دوران ذکر کرتے تھے۔وہ دنیا کے دیگر کامیاب لوگوں کی طرح ایک انتہائی محنتی شخص تھے۔ بہت کام کرتے تھے لیکن چہرے پر تھکن کے آثار نہ ہوتے بلکہ ہر وقت تروتازہ اور مسکراہٹ کے ساتھ لوگوں سے ملاقات کرتے۔عابدی صاحب بے شمار خصوصیات کے حامل شخص تھے۔ ان کی ذات مالیاتی شعبے کیلئے ہی نہیں بلکہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے شخص کیلئے مشعل راہ ہے۔ ان کا اپنے دور کے بڑے لوگوں سے بھی قریبی تعلق تھا جن میں میخائل گوربا چوف، جمی کارٹر، ڈینگ زیایونگ، اندرا گاندھی اور رابرٹ موگابے جیسی شخصیات شامل تھیں۔ عابدی صاحب کا دل پاکستان کیلئے دھڑکتا تھا۔ جب بھی پاکستان کو زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی، وہ ہمیشہ پیش پیش ہوتے۔انہوں نے بینک افسران کی ایک کھیپ تیار کی جو دنیا کے 73؍ممالک میں ان کے بینک کیلئے کام کرتے تھے اور افسران ان 73؍ممالک میں پاکستان کے سفیر ہوتے تھے۔عابدی صاحب نے پاکستان میں اتفاق فائونڈیشن جیسا ادارہ قائم کیا جو آج بھی صحت اور تعلیم کے شعبے میں فلاحی کام کررہا ہے۔انہوں نے غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ (GIKI) اور NUST جیسے اداروں کے قیام میں بھرپور حصہ لیا۔ آغا حسن عابدی کا نام ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہر انسان کو فنا ہے لیکن اس کے نیک اعمال کا توشہ اللہ پاک کے حضور چلا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریں