پیر، 12 اگست، 2024

بنگلہ دیش میں اقتصادی انقلاب کے خالق -ڈاکٹر محمد یونس پارٹ 1

یہ مضمون  میں نے گوگل    سے لیا ہے  تلخیص میری جانب سے ہے -غربت کی نچلی سطح  میں گلے 'گلے تک ڈوبے بنگلہ دیش   میں   ن نے ایک  بڑے خواب دیکھنے والا ایک  بڑے انسان  پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس  نے جب  اپنا علمی اور شعوری  قد کاٹھ نکالا تو ان کو معلوم ہوا کہ ان کے وطن پر  سرمایہ داری کے خونیں عقاب نے قوم کی شہ رگ  پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں ۔اور وہ  اپنے مقابل  بڑے قد کاٹھ کے   سیاسی اکھاڑے میں  اتر گئے  اور کچھ ہی عرصے کے بعد  ان کو معلوم ہوا  کہ سیاست کا میدان ان کے لئے موزوں نہیں ہے اس لئے باقاعدہ  دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے اکھاڑے سے نکل گئے - ان کو معلوم نہیں تھا اللہ رحمٰن  ان سے کون سا بڑا  کام لینا چاہتا ہےانہوں نے بنگلہ دیش میں  دیہاتی حکومتیں قائم کیں اور  وہ انتہائی غریب لوگوں کو جو عام بنکاری نظام سے قرضہ لینے کے اہل نہیں تھے ان  کو چھوٹے قرضے دینے کے نظام   رائج کیا ۔   وہ گرامین بینک کے بانی بھی ہیں۔ 2006ء میں ان کو اور ان کے بنک کو مشترکہ طور پر غریب لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنے پر اور سماجی خدمات کے شعبہ میں نوبل انعام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یونس انفرادی طور پر بھی کئی بین الاقوامی اعزازات بشمول بین الاقوامی خوراک کا انعام (ورلڈ فوڈ پرائز World Food Prize) جیت چکے ہیں۔ وہ بینکر ٹو دی پوور (Banker to the Poor) کے مصنف اور گرامین بنک کے بانی بھی ہیں۔1971ء میں جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا تو وہ ابھی امریکا ہی میں تھے۔ انھوں نے وہاں دیگر بنگالیوں کے ساتھ مل کر سٹیزن کمیٹی اور بنگلہ دیش انفارمیشن سنٹر قائم کیا۔


بنگلہ دیش کے قیام کے بعد محمد یونس وطن واپس آ گئے اور چٹاگانگ یونیورسٹی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔ ان کے ساتھ انھوں نے اپنے معاشرے سے غربت کے خاتمے کی کوششیں شروع کر دیں۔انھوں نے ’’رورل اکنامک پروگرام‘ُ‘ شروع کیا۔ یہ ایک ریسرچ پراجیکٹ تھا۔اس کے نتیجے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک سے غربت کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پورے ملک میں دیہاتی حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک زوردار مہم چلائی۔ جنرل ضیاء الرحمن بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے ملک کے 40 ہزار 3 سو 92 دیہاتوں میں حکومتیں قائم کر دیں۔1976ء میں انھیں خیال آیا کے چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر غریب لوگوں کو مشکلات سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلا قرضہ اپنی جیب سے دیا جس کی مالیت 27 ڈالر بنتی تھی۔ اس رقم سے گائوں کی 42 خواتین نے مختلف چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کیے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس سلسلے نے ملکی برآمدات درآمدات پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔غربت کے خاتمے کے لیے چھوٹے قرضے دینے کا آئیڈیا نیا نہیں تھا۔ اس کے سب سے پہلے خالق پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیویلپمنٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان تھے۔ روایتی بینک اس آئیڈیا پر کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے اپنے تحفظات تھے تاہم محمد یونس کا کہنا تھا کہ غریبوں کو آسان اور چھوٹے قرضے دیے جائیں تو نہ صرف وہ بروقت واپس کریں گے بلکہ اس سے ان کی اور ملک کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔رامین بنک سی اثنا میں محمد یونس حکومت کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دسمبر 1976ء میں انھیں اس حوالے سے ایک غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی جب سرکاری جنتا بنک نے انھیں قرض دینے کی ہامی بھرلی۔


 اس طرح انھوں نے ایک ادارہ قائم کر لیا جسے دوسرے بنکوں نے بھی قرضے فراہم کرنے شروع کر دیے۔ 1982ء میں اس دارے کے ممبرز کی تعداد 28 ہزار تھے۔ یکم اکتوبر، 1983ء کو یہ ادارہ باقاعدہ ایک بنک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کا نام ’’گرامین بنک‘‘ (دیہاتی بنک) رکھ دیا گیا۔ اس دوران محمد یونس کا سامنا بائیں بازو کے کٹر لوگوں سے بھی ہوا اور تنگ نظر مولویوں سے بھی مڈبھیڑ ہوئی جو کہتے تھے کہ وہ کسی ایسے فرد کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے جو گرامین بنک سے قرضہ لے گا۔ ان مخالفتوں کے باوجود گرامین بنک کے حجم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جولائی 2007ء کی رپورٹ کے مطابق یہ بنک 74 لاکھ لوگوں کو 6 اعشاریہ 38 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کرچکا تھا۔80 کی دہائی کے اواخر میں بنک نے کچھ نئے پراجیکٹ شروع کیے یعنی مچھلیوں کے تالاب اور ٹیوب ویل لگانا شروع کیے۔ بعد ازاں ایگریکلچر فاؤنڈیشن کی صورت میں باقاعدہ مکمل ادارے بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر کئی ادارے بھی قائم کر دیے گئے جن میں گرامین سافٹ وئیر لمیٹٹڈ گرامین سائبر لمیٹڈ، گرامین نیٹ وئیر، گرامین فون بنگلہ دیش کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہے۔ گرامین بنک سے قرضہ حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح 94 فی صد ہے۔ خواتین کو قرضے دینے میں اس لیے خوشی محسوس کی جاتی ہے کہ خواتین خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ مخلص ہوتی ہیں۔2006ء میں محمد یونس کو نوبل انعام دیا گیا۔ محمد یونس پہلے بنگلہ دیشی اور تیسرے بنگالی ہیں جنھوں نے یہ نوبل ایوارڈ حاصل کیا۔


 جب اس ایوارڈ کی خبر نشر ہوئی تو محمد یونس نے اس ایوارڈ سے ملنے والی رقم 14 لاکھ ڈالر میں سے ایک حصے سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا جو غریبوں کے لیے انتہائی سستی اور اعلٰی معیار کی خوراک تیار کرے۔محمد یونس کو نوبل ایوارڈ دلانے کے لیے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اہم کردار ادا کیا ۔کیلیفورنیا یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے بل کلنٹن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یونس ایسے شخص ہیں جنہیں بہت پہلے نوبل انعام مل جانا چاہیے تھا۔ معروف مغربی جریدے اکانومسٹ نے محمد یونس کو ایوارڈ دینے کی مخالفت کی۔ اس کا لکھنا تھا کہ زیادہ بہتر ہوتا اگر نوبل ایوارڈ دینے والی کمیٹی یہ اعلان کر دیتی کہ اس انعام کا کوئی حقدار نہیں۔2006ء کے اوائل میں محمد یونس اور سول سوسائٹی کے دیگر لوگوں نے ایک مہم چلائی جس میں کہا گیا کہ آئندہ انتخابات میں صرف دیانت دار اور صاف ستھرے لوگوں کو ہی امیدوار ہونا چاہیے۔ اس سال کے اواخر میں انھوں نے سیاست میں آنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ 11 فروری، 2007ء کو محمد یونس نے عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ انھیں رائے دی جائے کہ وہ سیاست میں حصہ لے کر کیسے اچھی حکومت اور موزوں قیادت تیار کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 18 فروری، 2007ء کو انھوں نے ’’ناگرگ شکتی ‘‘ کے نام سے پارٹی قائم کر لی۔


 چھوٹے قرضے سے بڑی ترقی کا عظیم خیال دے کربنگلہ دیش کو گرامین بینک جیسے قوی الجثہ مائیکرو فنانس بینک کا تحفہ دینے والے نوبیل انعام یافتہ ماہر معیشت پروفیسر  محمد یونس کو 6 ماہ قید کی سزا سنادی گئی۔ڈھاکہ  کی لیبر کورٹ نے83 سالہ بینکار محمد یونس کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں سزا سنائی، ان پر الزام ہے کہ وہ اپنی کمپنی میں ورکرز ویلفیئر فنڈ بنانے میں ناکام رہے، محمد یونس اور ان کے تینوں ساتھیوں کو 25 ہزار ٹکا کا جرمانہ بھی کیا گیا۔محمد یونس اور ساتھیوں نے درخواست ضمانت دائرکی جو کہ منظور کرلی گئی، عدالت نے ان کو 5 ہزار ٹکا کے عوض ایک ماہ کی ضمانت دے دی۔ اس سزا کے خلاف محمد یونس نے ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے، محمد یونس کے حامیوں نے سزا کو انتقامی نوعیت کا فیصلہ قرار دیا ہے،پروفیسر یونس کے وکلاکا کہنا ہے کہ انہیں لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں اور مبینہ بدعنوانی کے 100 سے زائد دیگر الزامات کا سامنا ہے۔محمد یونس کے چھوٹے قرضوں کے زریعہ معیشت میں بڑی تبدیلی لانے کے تجربہ نے نہ صرف بنگلہ دیش کی مژمردہ معیشت کو چند سال میں ترقی کی راہ پر ڈال دیا بلکہ ان کے اس تجربہ نے دنیا میں غربت کے خاتمہ کی ساری سائنس کو ہی بدل ڈالا۔ محمد یونس کا بنایا ہوا گرامین بینک بڑھتے بڑھتے دنیا میں مائیکرو فنانس کے بہت بڑے بینک میں بدل گیا  اور  تقریباً کسی مالی ضمانت کے بغیر جاری کئے گئے چھوٹے  قرضوں سے فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگ مہیب غربت کی دلدل سے باہر نکل آئے۔  محمد  یونس کے معیشت میں اس اہم تجربہ سے متاثر ہو کر جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور اقوامِ متحدہ نے غربت کے خاتمہ کی کوششوں اور حکمتِ عملیوں میں اہم تبدیلیاں کیں وہاں نوبیل کمیٹی نے بھی محمد یونس کو  2006 میں معیشت کا نوبیل پرائز دے دیا تھا۔ 


1 تبصرہ:

  1. حسینہ واجد ہوں یا پاکستان کے قومی رہنما ہوں اگر وہ ظلم کا راستہ اپناتے ہیں تو اللہ اپنی بے آواز لاٹھی سے سزا کا کام لیتا ہے

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر