جمعہ، 16 اگست، 2024

ہمارے جل گئے سارے خیام ائے با با-مجلس بی بی سکینہ

ِ

   مناجات امام حسین  علیہ السلام در نماز شب-اے پروردگار! مجھے ایک ایسی بیٹی عطا کر جس سے میں بہت زیادہ محبت کروں اور وہ بھی مجھ سے بہت زہادہ محبت کرے، وہ میرے سینے پر سوئے اور اس کی قرابت سے مجھے سکون ملے۔اللہ نے آپ کی دعائے نیم شب قبول کر لی اور آپ کو  اس دختر سے نوازا جس  نے کارزار کربلا میں  اور بعد از کربلا اپنے پدر کی محبت کا حق ادا کر دیا سکینہ بنت حسین علیہ السلام (پیدائش: 7 نومبر 676ء 24 ذوالحجہ 56ھ— وفات: 12 نومبر 680ء 13 صفر 61ھ بروز پیر)  سکینہ کے والد گرامی سردار کربلا حسین ہیں۔ جناب سکینہ کے والدہ گرامی امرا القیس کی بیٹی رباب تھیں۔ 56ھ میں جناب سکینہ متولد ہوئیں جو امام  حسین علیہ السلام کی بڑی عزیز اور چہیتی بیٹی تھیں۔ جناب سکینہ بنت الحسین علیہ السلام بروز عید مباہلہ بتاریخ 24 ذوالحجہ 56ھ (بروز جمعہ بمطابق 7 نومبر 676ء) کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور جس وقت آپ اپنی مادرگرامی رباب علیہ السلام کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ ہوئیں اس وقت آپ کی عمر 3 سال 7 ماہ 4 یوم تھی 



۔ہمارے لاکھوں سلام اس معصومہ پر جو عاشورا کے دن ڈھلنے تک اپنے سے چھوٹے بچوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتی رہی کہ ابھی عمو عباس پانی لائیں گے۔ معصوم کو کیا خبر تھی کہ اس کے عمو تو آج نہر کے کنارے اپنے بازو کٹائیں گے ۔عصرِ عاشورا سے پہلے جنابِ عباس  کی شہادت کے بعد سکینہ خاموش ہو گئی اور پھر موت کے وقت تک پانی نہ مانگا کیونکہ سکینہ کو آس تھی کہ چچا عباس ہی ہانی لائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہادتِ جنابِ عباس علمدار  کے بعد العطش العطش (ہائے پیاس ہائے پیاس) کی صدائیں نہیں آئیں۔ایک  مستند روائت یہ بھی ہے جب خیام کربلا جل چکے اور سہمے ہوئے تین دن تین راتوں کے بھوکے بچے اور مخدارت عصمت جلتی ریت پر بیٹھے ہوئے تھے اس وقت زوجہ ء حر نان جویں اور پانی لائ اور پانی  کا کوزہ جب بی بی سکینہ کو دیا گیا تو وہ ننھی بچی پانی  کا کوزہ لے کر مقتل کی جانب جانے لگی تو بی بی زینب نے  اس کو جلدی سے اپنی گود میں لے لیا اور پوچھا کہ کہاں جارہی ہو سکینہ تب بی بی سکینہ نے کہا پھپھی اماں آپ ہی نے تو کہا ہے کہ سب سے پہلے چھوٹے کو پانی پلاتے ہیں میں اپنے چھوٹے بھیا علی اصغر کو پانی پلانے جا رہی ہوں 


اما م   حسین   علیہ السلام کی رخصت -روائت  ہے کہ میدان کربلا میں جانے لئے آخری  رخصت کے لیے امام حسین خیام میں آئے اور فرمایا: (ياسُكَيْنَة! يا فاطِمَةُ! يازَينَبُ! يآُمَّ كُلْثُومِ! عَلَيْكُنَّ مِنِّي السَّلامُ!) سکینہ نے رو کر کہا: بابا! کیا مرنے کو جاتے ہیں۔ امام حسین نے فرمایا : کیسے نہ جاؤں کہ اب کوئی یاور و مددگار نہیں ہے۔ سکینہ نے کہا: بابا: ہمیں ہمارے جد کے حرم میں واپس پہنچا دیجیئے۔ امام حسین نے جواب میں  فرمایا آخری وداعئ قبول کرو: ۔ آپ کی یہ باتیں سن کر حرم میں نالہ و شیون کی آوازیں بلند ہونے لگیں، امام حسین نے انھیں تسلی دی اور ام کلثوم سے مخاطب ہو کر فرمایا: بہن میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ ہوش نہ کھونا۔ اسی وقت سکینہ نالہ کناں امام حسین کے پاس آئیں، سکینہ سے امام حسین کو بہت محبت تھی، سینہ سے لگایا اور آنسو صاف کر کے فرمایا:، اے سکینہ میری شہادت کے بعد تمھیں بہت زیادہ رونا پڑے گا اشک حسرت سے بہت زیادہ نہ تڑپاؤ، میرے جیتے جی نہ روؤ اور جب شہید ہو جاؤں تو میرے سوگ میں بیٹھنا

اک جام ہوا شامِ غریباں میں میسر

وہ کوزہ میں رکھ آئی تھی اصغر کی لحد پر

تھا مجھ سے بھی چھوٹا میرا بھیا ،میرا دلبر

شرمندہ میں ہو جاتی چچا پیاس بجھا کر

اب اپنے ہی ہاتھوں سے میری پیاس بجھانا

پیاسی ہے سکینہ

 

مقاتل میں لکھا ہے کہ جب  11 محرم 61 ہجری کو آلِ اطہار کو پابندِ سلاسل کر کے بازاروں سے گزارا گیا تو اس معصوم کو سب سے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی، کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اور پھر زندانِ شام کہ آخری آرامگاہ بھی وہی قید خانہ بن گیا -بی بی سکینہ بنت حسین علیہ السلام   امام علی   علیہ السلام کی پوتی اور امام حسین    علیہ السلام کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بنت الحسین   علیہ السلام جو تاریخ میں سیدہ سکینہ  کے نام سے معروف ہیں ، جب بنی امیہ کے شجرہ خبیثہ کی علامت ملعون یزید ابن معاویہ نے کربلا میں خاندان عصمت و طہارات اہل بیت آل محمد ص کو شہید کیا تو صرف ان کی شہادت پر اکتفا نہ کیا بلکہ محمد و آل محمد  کےمخدرات عصمت و طہارت پاک بیبیوں حتی کہ یتیم بچوں و بچیوں کو 10 محرم کے بعد قیدی بنا کر بے کجاوہ اونٹوں کے ذریعے اپنے پایہ تخت دمشق و کو فہ کے بازاروں و درباروں تک لے جایا گیا اور یہ پروپیگنڈہ تک کروایا گیا کہ نعوذ باللہ ان اہل بیت اطہار نے خلیفۃ المسلمین یزید ابن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تھی، اگر کوئی اس طرح کرے گا تو اس کا بھی یہی انجام ہو گا۔


ایک روز جب بی بی سکینہ اپنے بابا کو بہت یاد کررہی تھیں اور بہت آہ و بکا کیا ۔ تمام بیبیاں رو رہی تھیں یزید نے   طیش  کے عالم میں پوچھا کہ کیا معاملہ ہے اس کو بتایا گیا کہ حسین ابنِ علی (ع) کی چھوٹی بچی اپنے بابا کو یاد کر کے رو رہی ہے ۔ یزید ملعون نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس کو کس طرح خاموش کیا جائے یزید کو بتایا گیا کہ اگر سرِ حسین (ع) زندان میں بجھوادیں تو یہ بچی خاموش ہوجائے گی ،  دربان زندان  سرِ امام حسین علیہ السلام زندان میں لے کے آیا ۔ - عابدِ بیمار طوق و زنجیر سنبھالے بابا حسین کے سر کو لینے آگے بڑھے-زندان میں   اک حشر برپا ہوا ، تمام بیبیاں احتراماً کھڑی ہوگئیں -سکینہ کی گود میں جب بابا کا سر آیا بے چینی سے لرزتے ہونٹ امامِ عالی مقام کے رخسار پر رکھ دیے ، کبھی ماتھا چومتی کبھی لبوں کا بوسہ لیتیں روتی جاتیں اور شکوے کرتی جاتیںبابا ۔ بابا مجھے طمانچے مارے گئے ۔بابا میرے کانوں سےگوشوارے چھینے گئے ۔ میرے کان زخمی ہوگئے میرے دامن میں آگ لگی بابا نہ آپ آئے نہ عمو آئے نہ بھائی اکبر آئے ۔ بابا ہمیں بازاروں میں پھرایا گیا بابا اس قید خانے میں میرا دم گھٹتا ہے پیاسی سکینہ روتی رہی ہچکیوں کی آواز بتدریج  مدھم پھربالآخر خاموشی چھاگئی ۔ سید سجاد کھڑے ہو گئے پھوپی زینب کو سہارا دیا اور بلند آواز میں فرمایا:                      انا للہِ وانا الیہِ راجعو ن  - ثانی زہرا سلام اللہ نے بچی کا شانہ ہلایا تو ہاے سکینہ کہ کر خود بھی بچی سے لپٹ گیں اور آواز دی، اے بیٹا سجاد! سکینہ  اپنے بابا کے پاس چلی گئی- چراغ حرم آج قید خانہ شام میں گل ہوگیا-قید خانہ میں کہرام بپا ہوگیا- روایات میں ہے کہ اس بچی کو اسی خون بھرے کرتے میں دفن کیا گیا  -آج لاکھوں زائرین خواتین بی بی سکینہ کی لحد پر چراغ جلانے آتی ہیں 

1 تبصرہ:

  1. روایات میں ہے کہ اس بچی کو اسی خون بھرے کرتے میں دفن کیا گیا ا
    امام سجاد میت کو ہاتھوں پر اٹھا کر قبر تک لاے- سید سجاد نے قبر میں میت اتاری- اس کے بعد امام سجاد نے ننھی سی قبر بنائی- شہزادی آج بھی دمشق میں آرام فرما رہی ہیں- صدیوں سے قبرستان باب صغیر دمشق شام میں آپ کا روزہ مرجع خلائق ہے-

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر