جمعرات، 15 اگست، 2024

دریائے سندھ کی سوغات ''پلہ مچھلی''

 


پاکستان اللہ کریم  کی ان نعمتوں میں سے ایک ہے جسے اللہ نے دنیا کی ہر نایاب نعمت سے مالامال  کر رکھا ہے۔پھر اس نے  دریاؤں اور سمندر کے بارے میں بھی قران کریم میں کہہ دیا ہے کہ  ہم  نے اس میں تمھارے لئے فائدے رکھے ہیں - دریائے سندھ میں مچھلی کی ایک نایاب قسم پائی جاتی ہے جسے "پلا" مچھلی کہتے ہیں اس پلا مچھلی کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مچھلی  سمندر سے دریا میں آتی ہے اس کا مطلب یہ دریا کے بہاؤ کے مخالف چلتی ہے بالکل اسی طرح جیسے پہاڑی علاقوں میں ٹراؤٹ مچھلی جو پہاڑوں پر چڑھائی کرتی ہے اس لئے پلا مچھلی بہت طاقتور ہوتی ہے اور اسے  سب ہی لوگ  بہت شوق سے کھاتے ہیں تاثیر میں بہت گرم ہوتی ہے مقوی تاثیر کے ساتھ توانائی کا موجب ہے  ۔ اسے مچھلی کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے ۔ پلا مچھلی کی افزائش سال میں صرف تین مہینے تک ہوتی ہے ، مگر کئی سالوں سے سندھو دریا میں پانی نہ آنے کے باعث اب بہت ہی کم دستیاب ہے -ادریائے سندھ کیٹی بندر کے قریب ڈیڑھ سو میل سے زائد علاقہ میں ڈیلٹا بناتا بحیرہ عرب میں گرتا ہے ،یہ ڈیلٹا دریائے سندھ کے باقی سترہ سو میل کی لمبائی میں سب سے کم سطح والا علاقہ ہے، چناں چہ دریا کا پانی انتہائی آہستہ سے سمندر میں ملتا ہے اور جوار بھاٹا کے وقت یہ سارا علاقہ سمندری پانی سے بھر جاتا ہے۔ پانی کے اس اتار چڑھائو کی وجہ سے پلا میٹھے پانی سے مانوس ہوجاتی ہے، چناں چہ وہ ڈیلٹا میں ہی پرورش پاتی ہے۔


 ایک وقت تھا کہ پلا سفر کرتی ہوئی سکھر تک پہنچ جاتی تھی ، مگر اب یہ صرف جامشورو تک ملتی ہے۔ پلا مچھلی حساس ہوتی ہے۔ پکڑنے کے فوراً بعد لمحوں میں مرجاتی ہے جیسے ہی وہ جال سے ٹکراتی ہے، دم توڑ دیتی ہے۔آج کل پلا مچھلی کا سیزن ہے ، بڑی تعداد میں افراد کراچی، حیدرآباداور سندھ کے دیگر شہروں سے پلا مچھلی کھانے المنظر کوٹری بیراج جامشورو آرہے ہیں۔ المنظر  کے خوب صورت نظارہ میں دیکھتے ہوئے  اور ’’پلا‘‘ مچھلی  سے لطف اندوز ہوتے ہوئے تفریح کا مزادوبالا ہوجاتا ہے ۔زائقے کے اعتبار سے مچھلیوں کی ملکہ تصور کی جانے والی یہ مچھلی جس کا حیا تیاتی یا سا ئنسی نام tenualosa ilshaہے۔اس کا شہرہ صرف سندھ تک ہی محدود نہیں بلکہ اسے بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی بہت پسند کیا جا تا ہے۔اپمے ذائقے اور خوشبو کی طرح اس کی زندگی بھی منفرد نوعیت کی ہے۔یہ مچھلی میٹھے اور کھارے دونوں پا نیوں میں رہتی ہے۔یہ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ کھارے پانی میں گزارتی ہے۔مقامی لوگ اسے طاقتور مچھلی کہتے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ پانی کے دھارے کی مخالف سمت میں سفر کر کے سمندر سے دریا میں داخل ہوتی ہے۔پلا مچھلی کو بنگلہ دیش کی قومی مچھلی کا درجہ حاصل ہےاور اسے مغربی بنگال،اڈیسہ،تری پورہ،آسام(بھارت)میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہے۔


اس کے اندر بڑے تعداد میں باریک باریک کانٹے ہوتے ہیں لہذا اسے کھانے کے لیے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اسے شوق سے کھانے والوں کے کیے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی اور اسے اس طرح پکایا جا تا ہے کہ کانٹے زیادہ سخت نہیں رہ پاتے۔بنگلہ دیش کے تمام بڑے دریاوں میں یہ مچھلی عام طور پر پائی جا تی ہے۔مثلا پدما دریا(زیریں گنگا)،مہگنا(زیریں برہم پرا) اور گوداوری۔تاہم پدما دریا میں پائی جانے والی پلا مچھلی کو بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ لذیذ تسلیم کیا جاتا ہے۔بھارت میں روپ نارائن دریا،گنگا،مہاندی،چھلکا جھیل اور گوداوری دریا میں پائی جانے والی مچھلیاں لذت کے اعتبار سے خاصی شہرت رکھتی ہیں۔پاکستان میں ضلع ٹھٹھہ میں پلا مچھلیاں سب سے زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں۔بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے بہت سے ہندو خاندان کے لیے یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے مطلب یہ کہ پوجا پاٹ کے روز یہ لوگ پوجا پاٹ کے دوران بھی یہ مچھلی اپنے دیوی دیوتاوں کو چڑھاتے ہیں۔


اس مچھلی کے بارے میں کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس میں کافی مقدار میں تیل ہوتا ہے جس میں فیٹی ایسڈ(اومیگا3فیٹی ایسڈز)کی حاصی مقدار ہوتی ہے۔اومیگا3فیٹی ایسڈز کے بارے میں حال ہی مہں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ جانداروں میں کولسٹرول اور انسولین کم سطح پر رکھنے کے ضمن میں معاون ہوتا ہے۔یہ مچھلی بھارت پاکستان اور بنگلہ دہش میں مختلف طریقوں سے پکائی جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسے پکانے کے 50معروف طریقے ہیں۔اسے کم تیل میں آسانی سے تلا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں خود کافی مقدار میں تیل ہوتا ہے۔آج کل یہ حال ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی 80فیصد پلا مچھلی برما سے در آمد کی جاتی ہے۔یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی،حیدر آباد اور ٹھٹھہ کے ہوٹلوں میں اور سٹکوں کے کنارے فروخت ہونے والی پلا مچھلی دریائے سندھ سے نہیں پکڑی گئی۔کہا جاتا ہے کہ صرف ماہر ملاح ہی مقامی اور در آمد شدہ پلا مچھلی میں فرق کر سکتے ہیں۔"پلہ مچھلی میں کوسٹرول٫ برائے نام ہوتا ہے۔ یہ ریت میں، چولھے پر، گرل، ، سالن ، قورمہ، کوفتے، بریانی، پلاوا، بیک ور باربی کیو کی بنائی جاتی ہے۔آجکل پلہ مچھلی کا سیزن ہے جو اگست سے شروع ہوتا ہے اور مارچ تک رہتا ہے

 پلہ مچھلی صرف دریائے سندھ میں ہی پائی جاتی ہے اور حیدرآباد سندھ، پاکستان میں رہنے والوں کی خاص خوراک میں شامل ہے یہ چونکہ سب سے اعلٰی اور سب سے مہنگی مچھلی ہوتی ہے اس لئے اسے خاص احتیاط سے پکانا ہوتا ہے ویسے تو اس کا سالن بھی بہت لذیذ ہوتاہےالمنظر کو دریائے سندھ کی دوسری جانب بہت خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں سے پانی اور کشتیوں کا خوب صورت نظارہ ذہنی تسکین کا باعث بنتا ہے۔المنظر اور پلا مچھلی کا گہرا تعلق ہے دونوں ہی سندھ کی ثقافت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پلا کا سیزن ختم ہونے کے بعد المنظر پر سناٹا ہوجاتا ہے اس ریسٹورنٹ میں مچھلی اور پلا مچھلی، باربی کیو کے انواع و اقسام کے کھانے سیر و تفریح کرنے والوں کے دل موہ لیتے ہیں۔ پلا مچھلی کے سیزن میں یہاں لوگ دور دراز سے پلا مچھلی کھانے آتے ہیں۔ دریائے سندھ، جامشورو کے مقامی ملاحوں کا کہنا ہے  کہ چھٹی کے دن خاص طور پر جمعہ اور اتوار کو 1000 سے 1500 افراد یہاں کی سیر کرنے آتے ہیں۔ کشتی کا کرایہ 300 روپے فی چکر ہے، اس میں تقریباً 10 افراد کو بیٹھایا جاتا ہے۔ مون سون کے موسم میں پلا مچھلی اور مچھلیوں کی مختلف اقسام روہو مچھلی، کھگا مچھلی، پاپلیٹ وغیرہ کا ماہی گیر شکار کرتے نظر آتے ہیں۔ پلا مچھلی کو سندھ کی سوغات اور مچھلیوں کا سردار بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ملاح، پلا مچھلی کو میواجات میں شمار کرتے ہیں۔ یہ مچھلی سندھ کی معیشت بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے،  ۔ جب پلا دریا میں ہوتی ہے، تو پانی میں کہکشاں جیسے رنگ نمودار ہوتے ہیں   مضمون کے آخر میں رب کریم کا شکریہ جس نے ہم کو دریائے سندھ کا اور پلہ مچھلی کا تحفہ دیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر