بدھ، 14 اگست، 2024

بنگلہ دیش میں اقتصادی انقلاب کے خالق ڈاکٹر یونس پارٹ 2

 

وہ 2024 کا پہلا ہی دن تھا جب 84 سالہ نوبل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات محمد یونس کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس کے چھ ہی دن بعد 76 سالہ شیخ حسینہ واجد چوتھی بار انتخابات جیت کر جب ملک کی وزیراعظم بنیں تو انھیں جنوبی ایشیا کی سب سے طاقتور خاتون کہا گیا۔لیکن بنگلہ دیش میں سیاسی بساط اگلے سات ماہ میں یوں پلٹی کہ آج وہی محمد یونس عبوری حکومت کے نگران سربراہ بنائے جا چکے ہیں جبکہ انھیں ’عوامی دشمن‘ قرار دینے والی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے- گرامین فاؤنڈیشن  جس کے خالق موجودہ بنگلہ دیش کے صدر  ڈاکٹر محمد یونس نے جب  سیا ست کے اندھے کنوئیں میں ڈول ڈالا تو  اس وقت سیات کا آسمان صرف حسینہ واجد کے اختیار میں تھا جنہوں  نے  ڈاکٹر یونس کو اپنی رقیبانہ روش کے سبب پسپا ہونے پر مجبور کر دیا  اور  ڈاکٹر یونس جیسے عوام دوست انسان   سیاست سے دست کش ہو کر صرف عوام کی فلاحی  منصوبوں میں مصروف ہوگئے  ان کی  فاؤنڈیشن  نے   بنگلہ دیش کے  ساٹھ لاکھ سے زیادہ افراد کو اب تک  قرضے  دئے  ہیں اور 1997 سے قائم گرامین فاؤنڈیشن دنیا بھر میں امدادی کام کرتی ہےمحمد یونس نے چھوٹے قرضوں کے زریعہ غربت کے خاتمہ کے خیال پر کام 1974 کے قحط سے متاثر ہو کر شروع کیا تھا۔ اس وقت وہ بنگلہ دیش کے  پلاننگ کمیشن کی اچھی نوکری چھوڑ کر چٹاگانگ یونیورسٹی میں معیشت پڑھا رہے تھے۔ اس کام میں انہیں کامیابی دو سال بعد ملی جب دسمبر 1976 میں،ڈاکٹر  یونس  غریبوں کو قرض دینے کے لیے سرکاری جنتا بینک سے قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس قرض کے بعد  محمد یونس نے اپنے چھوٹے قرضہ کے منصوبوں کے لیے دوسرے بینکوں سے قرضے حاصل کرتے ہوئے کام جاری رکھا۔ 1982 تک ان سے قرض لے کر کام کرنے والے ارکان کی تعداد 28,000 تھی۔1 اکتوبر 1983 کو، محمد یونس کے پائلٹ پروجیکٹ نے غریب بنگلہ دیشیوں کے لیے ایک مکمل بینک کے طور پر کام شروع کیا اور اسے گرامین بینک یعنی دیہاتی بینک ("ویلیج بینک") کا نام دیا گیا۔ جولائی 2007 تک، گرامین بینک نے 74 لاکھ  ضرورت مندوں کو   6.38 بلین امریکی ڈالر  کے انتہائی چھوٹے قرضےجاری کیے تھے۔


گرامین بینک  ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے، بینک "یکجہتی گروپس" کا نظام استعمال کرتا ہے۔ یہ چھوٹے غیر رسمی گروپ قرضوں کے لیے مل کر درخواست دیتے ہیں اور اس کے اراکین ادائیگی کے شریک ضامن کے طور پر کام کرتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک دوسرے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔یونس اورگرامین کو نوبل انعام-محمد یونس نے گرامین بینک 1976 میں بنگلہ دیش میں قائم کیا تھا-بنگلہ دیش کے چھوٹے قرضے دینے والے گرامین بینک اور اس کے بانی محمد یونس کو اس سال کا امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔انعامات کے بارے میں فیصلہ کرنے والی سویڈن کی نوبل کمیٹی کے مطابق محمد یونس اور ان کے قائم کردہ ادارے کو یہ انعام غربت کے خاتمے کے لیے کام پر دیا گیا ہے۔محمد یونس نے کہا ہے کہ ’میں بہت بہت خوش ہوں۔ یہ ہمارے اور بنگلہ دیش کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ ہمارے کام کو تسلیم کرنا ہے۔ بطور ایک بنگلہ دیشی، مجھے فخر ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش کو کچھ دیاہے۔ اب ہمارے کام کو پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’یہ غریبوں کے حقوق کے لیے چلائی گئی ہماری تحریک کو شروع کرنا ہے۔ اس طرح تسلیم کیے جانے کے بعد ہم امید کرتے ہیں ہمارا ماڈل پوری دنیا میں پھیلے گا۔ دسیوں ہزار لوگ بنگلہ دیشی اور اس دوسرے جو پوری دنیا میں مائیکرو کریڈٹ پروگراموں کو فروغ دے رہے ہیں اس اعتراف سے بہت حوصلہ پائیں گے‘۔


گرامین بینک غریب لوگوں کو چھوٹے قرضے دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ غربت سے نکل سکیں۔یہ بینک محمد یونس نے سنہ 1976 میں بنگلہ دیش میں قائم کیا تھا۔ چھوٹے قرضے دینے کا یہ نظام پھر ’مائیکرو کریڈٹ‘ کے نام سے جانا گیا۔نوبل کمیٹی کا اپنے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’پائیدار امن تب تک ممکن نہیں ہے جبک تک آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت سے نہ نکل سکے۔ مائیکروکریڈٹ غربت سے نکلنے کا ایک راستہ ہے۔ مقامی سطح پر ترقی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو بھی فائدہ ہوگا‘نوبل کمیٹی کا اپنے فیصلے کے بارے میں کہنا تھا کہ ’پائیدار امن تب تک ممکن نہیں ہے جبک تک آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت سے نہ نکل سکے۔ائیکروکریڈٹ غربت سے نکلنے کا راستہ ہے۔ مقامی سطح پر ترقی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کو بھی فائدہ ہوگا۔‘کمیٹی نے کہا کہ محمد یونس کو یقین تھا کہ عورتیں بھی یہ قرضے لے کر اپنی زندگیاں بدل سکیں گی۔  ۔


بی بی سی بنگلہ کے مطابق جس وقت شیخ حسینہ واجد فوجی ہیلی کاپٹر میں ملک چھوڑ کر انڈیا روانہ ہو رہی تھیں، محمد یونس علاج کی غرض سے فرانس میں موجود تھے۔بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد کوٹہ مخالف طلبہ تحریک کے مطالبے پر ملک کے عبوری سربراہ بننے والے 84 سالہ معیشت دان کو ان کی قسمت چھ ماہ میں قید خانے سے اقتدار کی دہلیز پر لے تو آئی ہے لیکن ساتھ ہی ان کے کندھوں پر ہی ملک میں امن و امان کے قیام اور استحکام لانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔محمد یونس:  جنھیں ان کے مداح ’غریبوں کا بینکار‘ کہتے ہیں، اس وقت عالمی شہرت ملی تھی جب ان کے گرامین بینک کی جانب سے غریب طبقے کو کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دینے کے پروگرام کو سراہا گیا اور 2006 میں انھیں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔انھوں نے 1970 کی دہائی میں ملک میں مائیکرو فائنانس کے بانی کی حیثیت سے معاشرے کے محروم طبقے کے بہت سے لوگوں کو غربت کی زندگی سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کی۔یہ تصور انھیں چٹاگانگ یونیورسٹی سے متصل دیہات کے دوروں کے دوران آیا تھا جس کے بعد انھوں نے قلیل سرمایہ، جو بعض اوقات دس ڈالر تک ہوتا، درجن بھر دیہاتیوں کو بطور قرض فراہم کیا اور ایسے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والوں کو چنا جنھیں روایتی بینک قرضہ فراہم کرنے سے کتراتے تھے۔محمد یونس کا یہ ماڈل کامیاب ہو گیا اور تیزی سے پھیلا۔  


     گرامین کے معنی ’گاؤں کا بینک‘ ہے۔2007 میں محمد یونس نے ’ناگرک شکتی‘ یعنی ’عام شہری کی طاقت‘ کے نام سے اس تحریک پر کام کرنا شروع کیا جو ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت بنانے کی کوشش تھی اس بینک نے ٹیسکٹائل سے لے کر موبائل ٹیلی کام اور براڈ بینڈ جیسے بڑے شعبوں سمیت زندگی کے ہر شعبے میں سرمایہ لگایا اور رفتہ رفتہ عالمی شہرت پروفیسر یونس کا پیچھا کرنے لگی۔ 2006 میں انھیں نوبل انعام دیا گیا تو ان کا ماڈل ترقی پذیر دنیا میں بھی مشہور ہو چکا تھا۔ 6 اگست 2024-سیاست میں قدم اور شیخ حسینہ واجد سے رقابت-نوبل انعام پانے کے چند ہی ماہ بعد پروفیسر یونس نے سیاست میں قدم رکھا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’میں ایسا شخص نہیں ہوں جو سیاسی میدان میں آرام دہ محسوس کرتا ہے۔ لیکن اگر حالات نے مجبور کیا تو میں سیاست کا حصہ بننے سے گریز نہیں کروں گا۔‘۔2008 میں وزیر اعظم بنتے ہی شیخ حسینہ واجد نے یونس پر الزام لگایا کہ وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں سے ’غریبوں کا خون چوس رہے ہیں‘طاقت کی رسہ کشی اور سیاسی رقابتوں سے مایوس ہونے کے بعد محمد یونس جلد ہی سیاسی میدان سے پسا ہو گئے۔لیکن  حسینہ واجد  نے ان کے لئے انتقام کا دروازہ بند نہیں کیا -یہاں تک کہ گزشتہ سال اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کے ساتھ حکومتی رویے پر سرزنش بھی کی جب عالمی تنظیم کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بیان دیا کہ ’ہمیں انسانی حقوق کے کارکنوں کی ہراسانی پر کافی تشویش ہے 2024 جنوری میں ملک کے لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت گرامین ٹیلی کام کے تین ساتھیوں سمیت یونس کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی اور پھر ضمانت پر رہا ہو گئے۔’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا‘ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پروفیسر یونس نے بیان دیا تھا کہ ’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا ہے‘شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ڈرامائی اختتام کے بعد اب پروفیسر یونس ہی ایک ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جن پر ملک میں احتجاج کرنے والے طلبہ اعتماد کرتے دکھائی دیے۔۔

1 تبصرہ:

  1. ڈاکٹرمحمد یونس کو 2006 میں مائیکرو فنانس میں ان کے نمایاں کام پر امن کا نوبل انعام ملا تھا اور لاکھوں بنگلہ دیشیوں کو غربت سے نکالنے کا سہرا ان کے سر ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر