ہفتہ، 17 اگست، 2024

بڑے خواب دیکھنے والا ایک بڑا انسان -آغا حسن عابدی

  

’’آغا حسن عابدی ان عظیم انسانوں میں سے ایک تھے جو  اپنے خوابوں کو پورا کر گئے ۔ وہ ایک  اعلیٰ تعلیم یافتہ  مثالی محب وطن اور لیجنڈری بینکار تھے۔ان کی ولادت 14مئی 1922ء کو  بر صغیر  کے انتہائ اعلیِ  تہذیبی  شہر لکھنؤ میں  ہوئ ۔ان کے آباؤ اجداد نے کئی نسلوں تک نوابوں اور راجوں مہاراجوں کے اتالیق و مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو آغا صاحب ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور خود کو اس کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف کردیا۔ انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور پھرقانون کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد بنکاری کا شعبہ اپنایا اور 1946ء میں حبیب بنک سے منسلک ہوئے۔ وہ اس بنک کے متعدد انتظامی عہدوں پر فائز رہے ۔1972ء میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا تو آغا حسن عابدی نے متحدہ عرب امارات کے شیوخ کے مالی تعاون سے بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس (Bank of Credit and Commerce International۔ BCCI) کے نام سے ایک بین الاقوامی بنک قائم کیا۔ جس کی شاخیں بہت جلد دنیا کے 72 ملکوں میں پھیل گئیں۔


آغا صاحب نے 1940 کے عشرے کے آخر میں ایک بینک سے اپنا بینکنگ کیریئر شروع کیا اور تیزی سے ترقیاں حاصل کیں۔ انھیں بینک کے مالک سے متعارف کرانے والے کوئی اور نہیں خود راجا صاحب محمودآباد تھے۔ 1959 میں انھوں نے ایک دوسرے بینک میں شمولیت اختیار کرلی، وہاں بھی انھوں نے تیزی سے آگے بڑھنے کی روایت برقرار رکھی اور سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کی زیر قیادت یو بی ایل نے پاکستان کا بینکنگ کلچر بدل کر رکھ دیا اور ملک کا دوسرا بڑا بینک بن گیا۔ مگر یہ ان کی شمولیت کے بعد بینک کی ترقی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔1972 میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، آغا صاحب نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کے نئے پروجیکٹ پر کام شروع کیا، انھوں نے عربوں کو اس میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کیا جس کے نتیجے میں دنیا کے بڑے بینکوں میں ایک اور ایسے بینک کا اضافہ ہوا جس کے دفاتر دنیا کے 72 ملکوں میں قائم تھے۔ اس کے ملازمین کی تعداد 16 ہزار تھی اور آغا صاحب نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ملازمین کی اکثریت پاکستانیوں پر مشتمل ہو۔ اپنے ملک اور ہموطنوں کے لیے وہ ایسی ہی سوچ اور جذبہ رکھتے تھے۔ بینک کے اعلیٰ انتظامی افسران میں سے 80 فیصد سے زائد کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔


 اور یہ دنیا کے بہتیرین بینکوں میں شمار ہونے لگا ۔ آغا حسن عابدی نے بی سی سی آئی کو ایک کمرشل بینک کی حیثیت سے قائم کیا تھا مگر اسے تیسری دنیا کے ممالک کے محروم پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقوام کی ترقی کے لیے ایک فعال ادارے میں ڈھال دیا۔ انھوں نے اپنے بنک کے زیر اہتمام متعدد خیراتی اور فلاحی ادارے اور فاؤنڈیشن قائم کیے جنھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً پاکستان میں فلاحی کام سر انجام دیےوہ ایک مضبوط پاکستان تعمیر کرنے میں ان کے کردار سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔  ۔ فاسٹ نیشنل یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ سے ہر سال ہزاروں گریجویٹ نکلتے ہیں، ان میں سے چند ہی جانتے ہوں گے کہ ان باوقار اداروں کی بنیادیں کس نے رکھی تھیں۔ یہ اسی ایک شخص کا ویژن تھا جس نے پاکستان کی ترقی میں بھرپور کردار ادا آج کے تاریک  دور  میں پاکستانی نوجوانوں کو ایسی متاثر کن شخصیات سے متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جن کے نقش قدم پر چل کر وہ زندگی میں کامیابیاں و کامرانیاں سمیٹ سکیں۔انھوں نے ثابت کیا کہ قوم کی خدمت کے لیے سیاست واحد ذریعہ نہیں ہے۔ 

 

بی سی سی آئی کی ترقی سب کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔انہوں  نے نہا ئت برق  رفتاری سے ترقی کی اور بہت جلد  بی سی سی آئی کو دنیا بھر کا سب سے بااثر بینک بنادیا،یہ اعزاز بھی بی سی سی آئی کو حاصل ہے کہ اس نے بینکاری کے شعبے میں کامیاب پیشہ ور لوگوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کو تربیت دی۔ آج اگر پاکستان کے بینکاری اور مالیات کے شعبے جدید خطوط پر استوار اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں تو یہ کارنامہ بھی آغا صاحب ہی کا مرہون منت ہے۔ آغا صاحب کو ویژنری کہنا غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے پاکستان میں بہت پہلے کمپیوٹر سائنس کو متعارف کرایا، جب بہت کم لوگ جانتے تھے کہ یہ کس بلا کا نام ہےپاکستان میں کمپیوٹر سائنس کو فروغ دینے کی خاطر انھوں نے 1980 میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے بی سی سی آئی فاؤنڈیشن (فاسٹ) قائم کرنے کے لیے 100 ملین روپیہ کا عطیہ دیا۔ سال 2000 نے فاؤنڈیشن کی طرف سے فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز کو وجود میں آتے دیکھا۔ اس بڑی یونیورسٹی کے کیمپس اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور میں قائم ہیں۔ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ (جی آئی کے آئی) بھی انہی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ ان دونوں اداروں نے کئی سائنسدان اور انجینئرز پیدا کیے ہیں جو پاکستانی معیشت کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔آغا صاحب ایک ایسے تاجر تھے جو اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ آدمی کا مقصد حیات غریبوں کی مدد کرنا ہونا چاہیے۔ ان کے سرانجام دیے ہوئے عظیم کارناموں کا ثبوت یہ ہے کہ وفات کے کئی سال بعد آج بھی لوگ ان کی مخیرانہ سرگرمیوں سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ آغا صاحب نے زندگی کی آخری سانسیں کراچی کے ایک بڑے اسپتال میں دوران علاج لی تھیں، وفات کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔ خرابی صحت کی بنا پر وہ بی سی سی آئی سے بہت پہلے 1988 میں ہی علیحدگی  کرچکے تھے۔ آغا صاحب کو علیحدگی اختیار کیے ہوئے بمشکل 3 سال ہوئے تھے جب تیسری دنیا کا یہ قابل فخر بینک   بند کردیا گیا۔


6 اگست 1995 کو نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ بی سی سی آئی پر لگائے جانے والے الزامات میں کوئی سچائی تھی بھی تو آغا حسن عابدی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، ان کا اپنا کہنا بھی یہی تھا کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ ایک شاعر اور مستقبل پر نظر رکھنے والے (ویژنری) آدمی تھے۔انھوں نے بی سی سی آئی کی شکل میں جو بینک قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا اس کے ذریعے وہ عوامی بہبود کے کام کرنا اور تیسری دنیا کے ممالک سے غربت ختم کرنا چاہتے تھے۔وہ لندن میں رہتے اور انتہائی نفیس و خوش لباس آدمی تھے۔  شیخ زید بن سلطان النہیان کے علاوہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی آغا صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ بقول شاعر ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔2انھوں نے نو آزاد متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کا اعتماد حاصل کیا اور ان کی مالی اعانت سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک عالمی بینک کے قیام کا ڈول ڈال دیا

  

1 تبصرہ:

  1. حبیب بینک میں ملازمت کے دوران آغا حسن عابدی کے تعلقات پاکستان کی کاروباری شخصیات سے استوار ہونا شروع ہوئے جن میں سہگل خاندان کا نام سرفہرست تھا۔ 1959 میں حبیب خاندان نے سہگل خاندان کو ایک ایسے کاروباری معاملے میں بینک گارنٹی دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس میں حبیب خاندان خود بھی دلچسپی رکھتا تھا۔

    جواب دیںحذف کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر