بڑی مشہور مثل ہے عشق نا پوچھے زات-لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک عورت جب ماں بن جاتی ہے تب اس کے لئے دنیا کے رشتہ پر اس کی اولاد کارشتہ حا وی آجاتا ہے -تو پھر یہ کون سی مائیں ہوتی ہیں جو اپنی آغوش میں کھلے ہوئے ننھے پھولوں کو نوچ کرزمانے کی دھوپ کے حوالے کر کے کسی کی محبت میں دور دیس سدھار جاتی ہیں -اور وہ مرد کتنے بد بخت ہوتے ہیں جو دوسروں کے آنگن اجاڑ کر اپنے آنگن بساتے ہیں -تریپورہ کا ایک شخص اور بنگلہ دیش کی ایک خاتون چہارشنبہ کی رات بنگلہ دیش کے ضلع مولوی-اگرتلہ: تریپورہ کے ایک شخص کے ساتھ بنگلہ دیشی گرل فرینڈ کے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے پر اسے گرفتار کرکے عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ بازار سے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کی کڑی نگرانی سے بچ کر اور خاردار تاروں کی باڑھ کو عبور کرکے ہندوستانی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ پولیس کے مطابق بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی ماں 24 سالہ فاطمہ نصرت کو دو ماہ قبل بنگلہ دیش میں قیام کے دوران آسام تری پورہ سرحد پر واقع گاؤں پھولباری کے روایتی رہائشی 34 سالہ نور جلال سے محبت ہوگئی۔ جلال اکثر اپنے پیشے کو آگے بڑھانے کے لئے جڑی بوٹیاں اور پودے خریدنے بنگلہ دیش جاتا تھا۔نصرت نے پولیس کو بتایا کہ جلال نے فاطمہ نصرت سے مولوی بازار میں اس کے سسرال کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور وہ باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے
جوں جوں ان کا رشتہ پرانا ہوتا گیا، انہوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن وہ پہلے سے شادی شدہ اور دو کم عمر بچوں کی ماں بحی تھی، اس لئے اگر ان کا رشتہ عام ہو جاتا تو جلال کے لئے پیچیدگیاں پیدا ہو جاتیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک ہفتہ قبل بھاگ کر ہندوستان میں داخل ہوگئے۔ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے جمعرات کو شمالی تریپورہ کے پھولباری میں جلال کے گھر پر چھاپہ مارا اور نصرت کو حراست میں لے لیا لیکن پولیس کی موجودگی کو دیکھ کر جلال فرار ہو گیا۔بعد ازاں نصرت کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ شمالی تریپورہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے کے الزام میں 14 دن کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا اور پولیس کو جلال کو گرفتار کرنے کی ہدایت دی۔او سی چورائے باڑی سمریش داس نے کہا کہ کہ ہم نے نور جلال کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور تلاش شروع کر دی ہے--ایک اور داستان محبت-
چار بچّوں کی ماں پاکستانی عورت انڈین لڑکے سے پب جی کھیلتے ہوئےاس کی محبت میں گرفتار ہوئیں اور کئ ملکوں سے ہوتے ہوئے انڈیا پہنچی-انڈین پولیس کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ خاتون مئی 2023 سے دلی کے نواحی علاقے میں غیرقانونی طور پر سچن نامی انڈین شہری کے ساتھ مقیم تھی۔ انڈین پولیس نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ پاکستانی خاتون سچن سے محبت کرتی ہیں اور یہ محبت ہی انھیں سرحد پار سے انڈیا کھینچ لائی۔پولیس کے مطابق پاکستانی خاتون کی ملاقات سچن سے پب جی گیم پر ہوئی تھی، دونوں میں تعلقات بڑھے اور پھر وہ ایک دوسرے سے واٹس ایپ کے ذریعے باتیں کرنے لگے اور دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی، جس کے بعد سیما نے انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔گریٹر نوئیڈا کے پولیس افسر اشوک کمار کا کہنا ہے کہ چند روز قبل پولیس کو ایک مخبر کے ذریعے اطلاع ملی کہ ایک پاکستان خاتون دلی کے نواحی علاقے ربو پورہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں، جس پر پولیس نے مزید معلومات حاصل کرنے کے بعد انھیں حراست میں لے لیا ہے۔عدالت میں پیشی کے موقع پر خاتون نے میڈیا کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں بتایا کہ وہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پب جی کھیلا کرتی تھیں جہاں پر اُن کی ملاقات انڈین شہری سچن سے ہوئی، دونوں میں تعلق بڑھا اور محبت ہو گئی، جس کے بعد دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔گریٹر نوئیڈا کے ڈپٹی پولیس کمشنر سعد میاں خان نے بتایا کہ خاتون کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے
عورت جس کا نام سیما ہے اس کے خاوند کا کہنا ہے اہلیہ سے رابطہ نہ ہونے پر انھوں نے اُس کے بھائی کو فون کیا جس نے پتہ کر کے بتایا کہ اُن کی بیوی نے مکان فروخت کر دیا ہے اور وہ بچوں کے ساتھ کہیں چلی گئی ہیں۔شوہر کے مطابق چونکہ وہ سعودی عرب میں مقیم تھے اس لیے انھوں نے اپنے والد کے ذریعے اپنی اہلیہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی۔انھوں نے بتایا کہ ’جاننے والوں کی مدد سے معلوم کیا تو ابتدا میں پتا چلا کہ وہ دبئی گئی ہے۔ بعد میں نیپال جانے کا پتہ چلا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ انڈیا کی جیل میں ہے۔‘پاکستانی شوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کو طلاق نہیں دی اور وہ اب بھی ان کے نکاح میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کو میڈیا کے ذریعے پتا چلا ہے کہ ان کی بیوی واپس پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔اور اب وہ اپنے ہندو دوست کا مذ ہب اختیار کر چکی ہے -یاد رہے کہ گھر کے مالی حالات کی بہتری کے لئے سیما کا شوہر باہر مقیم تھا-
انٹر نیٹ پر لوڈو کھیلتے ہو ئے محبت ہو گئ اور پھر لڑکی اپنے دو کم سن بچّے چھوڑ کرپاکستان کے علاقے بالا کوٹ آ گئ جہاں نصر اللہ نامی لڑکے سے اس کا نکاح ہوا اور لڑکی کرسچئین سے مسلمان ہوئ -اس لڑکی کے بھی دو نوں بچّے ہندوستان میں ہیں -واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے حکام نے تصدیق کی ہے انڈیا سے پاکستان آنے والی خاتون انجو نے پاکستانی نوجوان نصراللہ کے ساتھ نکاح کر لیا ہے تاہم سرکاری حکام، نکاح خواں اور دیگر ذرائع کی جانب سے تصدیق کے باوجود انجو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شادی کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔‘بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مالاکنڈ کے ریجینل پولیس آفیسر (آر پی او) ناصر محمود ستی نے انڈین خاتون انجو اور نصراللہ کے نکاح کی تصدیق کی جبکہ نکاح خواں قاری شمروز خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاطمہ (انجو) کا نصراللہ کے ساتھ نکاح دس ہزار روپے اور دس تولے سونا حق مہر کے عوض پڑھایا۔قاری شمروز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے نکاح پڑھانے کے لیے نصر اللہ نے بلایا تھا جو میرے جاننے والے ہیں۔ ہم ایک --ہی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ وہ دونوں اب قانونی طور پر میاں بیوی ہیں--
ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں۔نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت دیر بالا پہنچیں جب شدید بارش ہو رہی تھی۔‘فرید اللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں -نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا، مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہیں اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘ان کے مطابق اس پورے عمل میں دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی
خدارا اپنے آنگن بسانے کو دوسروں کے آنگن نہیں اجاڑو
جواب دیںحذف کریں