جناب خدیجة الکبریٰ سلام اللہ علیہا وہ ہستی ہیں جن کے دین اسلام پر بے انتہا احسانا ت ہیں -،سب سے پہلے تو آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن کے شوہر نبی ءخدا، خاتم النبیین، جن کی بیٹی سید ۃالنسا العالمین جنھیں خاتون جنت کا خطاب ملا اور داماد وہ جو آئمہ طاہرین کے والد اور وصی خدا۔ جناب خدیجۃ الکبریٰ کی ذات مقدس بے شمار اوصاف کی مالک ہستی ہیں لیکن دوسری جانب دین اسلام کے لئے اتنی قربانیاں ہیں کہ شاید ہی ان کا شمار ممکن ہو۔ نبی کریم نے حضرت خدیجہؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا: "خدا نے خدیجہ سے بہتر کوئی بیوی مجھے نہیں دی، جب لوگ مجھے جھوٹا کہتے تو وہ میری سچائی کی گواہی دیتی اور جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی، جو دوسری زوجات سے عطا نہیں کی۔"(شیخ مفید، الافلاح، ص ۷۱۲)
جناب خدیجہ بنت خویلد (متوفی سنہ ۰۱ھ) جو کہ خدیجۃ الکبریٰؑ اور ام المومنین کے نام سے مشہور ہیں، پیغمبر اکرم کی پہلی زوجہ تھیں، جن سے نبی کریم نے بعثت سے قبل نکاح کیا تھا۔ نبی کریم حضرت محمد، حضرت خدیجہؑ کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ان کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ اچھے الفاظ سے انہیں یاد فرمایا۔ ۔ حضرت خدیجہؑ جو کہ خاتون حجاز یا ملیکة العرب کے نام سے مشہور تھی، نہایت ہی عقلمند خاتون تھیں۔ آپؑ کی مادی قوت اور مال و دولت سے زیادہ اہم آپؑ کی روحانی اور معنوی دولت تھی۔ آپ نے قریش کے ان اشراف زادوں سے شادی کی درخواست مسترد کر دی بلکہ آپ نے حضرت محمد کو اپنے شریک حیات کے طور پر منتخب کیا اور اپنی تمام مادی اور دنیاوی دولت اسلام کی راہ میں خرچ کر دی۔" ایک دفعہ نبی کریم بہت پریشان بیٹھے تھے، بی بی خدیجہؑ نے دریافت کیا کہ ”یارسول اللہ! اتنے پریشان کیوں ہیں؟" فرمایا: لوگ میری بات نہیں سنتے ہیں۔ اس موقع پر آپؑ نے پورے عرب میں منادی کروا دی کہ جس جس نے میرا قرض دینا ہے، آئے اور اپنا قرض معاف کروا لے۔ اس طرح لوگوں کی ایک کثیر تعداد جو آپؑ کی مقروض تھی، وہ آگئے۔ وہ پہلے نبی کریم کے پاس جاتے ان کی بات سنتے (تبلیغ اسلام) پھر بی بیؑ اس کے عوض ان کا قرض معاف فرما دیتیں۔
نبی کریم فرماتے ہیں: "کسی مال نے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا، جتنا فائدہ مجھے خدیجہؑ کی دولت نے پہنچایا۔ رسول کریم کی وفادار شریک حیات کے بارے میں جتنا بیان کیا جائے، اتنا ہی کم معلوم ہوتا ہے۔ محسنہ اسلام، وہ خاتون جنھوں نے نبی کریم کے دین اسلام کو لبیک کہا۔ جو ہر قدم پر نبی پاک کے ساتھ ساتھ رہیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب اہل قریش نے شعب ابی طالب جیسی گھاٹی میں بنی ہاشم کو محصور کر دیا تو اپنے شوہر رسول خدا کے ساتھ رہیں۔اسی لیے جب وہ محاصرہ ختم ہوا اور نبی کریم کو فتح و کامرانی نصیب ہوئی تو حضرت خدیجہؑ اور نبی کریم کے چچا جان (والد حضرت علیؑ) جناب ابو طالب بستر مرگ تک پہنچ چکے تھے۔ تقریباً محاصرہ کے اختتام کے دو ماہ کے اندر اندر بعض روایات کے مطابق حضرت خدیجہ حضرت ابو طالبؑ کی رحلت یا شاید شہادت کہنا بھی غلط نہ ہوگا کے 54 دن بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔ اس سال کو نبی کریم نے ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال قرار دیا۔
؎ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓمکہ کی ایک نہایت معزز اور دولت مند خاتون تھیں۔ آپؓ کا لقب طاہرہ اور کنیت اُمّ ہند تھی، رسول اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ جو قریش کے ممتاز خاندان اسد بن عبدالعزیٰ سے تھیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کے صدق و دیانت کا تذکرہ سن کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ’’میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، میرا غلام آپﷺ کے ہمراہ ہوگا۔ آپ ﷺ نے حامی بھرلی اور بصریٰ (شام) کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر جو سامان ساتھ لے گئے تھے اسے فروخت کیا اور دوسرا سامان خرید لیا۔ نیا سامان جو مکہ آیا تھا اس میں بھی بڑا نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے آمدنی سے خوش ہوکر جو معاوضہ ٹھہرایا تھا اس کا دگنا ادا کیا۔ نبی کریم ﷺ کی نیک نامی، حسن اخلاق اور امانت و صداقت کی شہرت کے چرچے ہونے لگے جو ہوتے ہوتے حضرت خدیجہؓ تک بھی پہنچے۔ چنانچہ واپس آنے کے تقریباً 3 ماہ بعد حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے پاس شادی کا پیغام بھیجا اس وقت آپؓ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا لیکن آپؓ کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ تاریخ معین پر آنحضرت ﷺ ، حضرت ابوطالبؓ اور تمام رئوسائے خاندان جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے، حضرت ابوطالبؓ نے آنحضرت ﷺ کا خطبۂ نکاح پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ شادی کی تقریب بعثت سے 15 سال پیشتر انجام پذیر ہوئی۔ یہ 25 عام الفیل تھا۔ آغازِ وحی کے وقت سے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی حمایت و معاونت کا فیصلہ کرلیا تھا اور آپؓ نبوت ملنے کی ابتدائی گھڑیوں میں ہی آنحضور ﷺپر ایمان لے آئی تھیں مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں۔ پھر آ نے اپنی دولت و ثروت تبلیغ دین و اشاعت اسلام کے لیے وقف کر دی۔اور آنحضرت ﷺ تجارتی کاروبار چھوڑ کر عبادتِ الٰہی اور تبلیغِ اسلام کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔
حضرت خدیجہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ انہیں اکثر یاد کیا کرتے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرکے فرمایا کرتے کہ: ’’خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی۔ خدیجہؓ نے مجھے اپنے مال میں شریک کرلیا۔‘‘ ام المومنین حضرت خدیجہؓ میں اتنی خوبیاں تھیں کہ آپ ﷺزندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر آتے تھے۔ مولانا صفی الدین مبارک پوریؒ اپنی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے صفحہ 634 پر ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ’’ہجرت سے قبل مکہ میں نبی ﷺ کا گھرانہ آپﷺ اور آپؐ کی زوجۂ مبارکہ حضرت خدیجہؓ پر مشتمل تھا۔ آپ ﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیمؓ کے ماسوا تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی آپؐ جب تک زندہ رہیں نصرت و حمایت کا حق ادا کرتی رہیں اور رسالت مآبؐ کی ہر طرح معین و مددگار رہیں اور دس رمضا ن کو مالک بر حق کی جانب لوٹ گئیں -وقت ِ تدفین رسول اکرم ﷺ خود قبر میں اترے، آپؓ کواپنے دست مبار ک سے قبر میں اتارا ۔حضرت ابو طالبؓ اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے سال کو’’ عام الحزن‘‘ قرار دیا
آپ کا ایک لقب ملیکۃالعرب بھی مشہورہے
جواب دیںحذف کریں