بدھ، 8 مارچ، 2023

ممّا ممّم دے دو

 

یوں تو حوادث زمانہ اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن بہر حال کبھی 'کبھی کچھ ایسے حادثے بھی رونما ہو جاتے ہیں جن کے

 رونما ہونے سے پہلے بر وقت اچھے فیصلے کر لئے جائیں تو ان سے بچا جا سکتا ہے ایسے کچھ واقعات جو میری نظروں کے سامنے پیش

 آئے اور پھر زندگی ان کا ازالہ نا کر سکی --پہلی سچّی کہانی-شادی کا گھر تھا ،رات ہوئ توڈھول ڈھمکّے سے فراغت کے بعد منچلے تاش

 کھیلنے بیٹھ گئے ایک لڑکی کے گھر پہلا پھول کھلا تھا جو صرف ایک مہینے کا ہوا تھا بچّے کو برابر کے کمرے میں چار پائ پر سلا کر ماں بھی

 کھیل میں شامل ہونے دوسر ے کمرے میں آگئ اور پھر سب ہی تاش کے پتّو ں میں ایسے گم ہوئے کہ جب کھیل ختم ہوا تب

 خیال  آیا کہ بچّہ دیکھ لیا جائے ،اب تو بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ کسی مہربان نے گھر کے سا رے لحاف گدّ ے اس پلنگ پر لا کر بغیر

 دیکھے ڈ ھیر کر دئے تھے جو جلدی جلد ی ہٹائے گئے تب تک پھول کو مرجھا ئے ہوئے کئ گھنٹے بیت چکے تھے ،کیا تمام عمر اس

 نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے

دوسری  کہانی --ایک لڑکی کے یہاں پہلا بچّہ چند دن کا ہوا تھاکہ ایک دیرینہ سہیلی ملنے آگئ ،بچّے کی ما ن کو ہاسپٹل جانا تھا اس نے

 اپنی سہیلی سے کہا کہ اسٹور میں جھولا رکھا ہے اگر بچّہ روئے تو جھولا نکال کر اس میں لٹا دینا یہ کہ کر بچّے کے ما ں باپ بے فکری

 سے چلے گئے اور جب بچّہ رویا تو سہیلی نے اسٹور سے جھولا نکال کر اس میں بچّے کو  لٹایا لیکن جیسے ہی بچّے کو لٹایا بچّہ ایک دلخراش

 چیخ مار کر رویا پھر نیلا ہو کر ساکت ہو گیا ،جھولے میں بڑا سا سیا ہ رنگ کا بچھّو چھپا ہوا تھا بچّے کے ماں باپ جب گھر آئے تو سہیلی

 قدموں میں گر پڑی اور کہنے لگی میں نے کچھ نہیں کیا ،جو یہ ایسا ہو گیا جب جھولے سے بچّے کو نکالا گیا تو بچھّو اس کی ننھی سی پیٹھ

 سے چپکا ہوا تھا یہ کیس سراسر بچّے کے ماں باپ کی غفلت کی نشاندہی کرتا ہے کہ بچّے کے جھولے کی دیکھ بھال انہی کا فرض بنتا تھا ،

تیسری  کہانی --اس بات کو کافی عر صہ گزرا لیکن میری نظروں میں آج تک اس پھول کا چہرہ محو نہیں ہو سکا بچّی میرے محلّے میں

 اپنے ماں باپ کے ساتھ آئ ،میری اپنی تین برس کی چھوٹی بیٹی جتنی اور اتنی پیاری بھی تھی دونو ں میں خوب دوستی ہوگئ ،بچّی صبح

 سے لے دوپہر تک بھی رہتی تو گھر سے کوئ پوچھنے نہیں آتا تھا کہ بچّی کس حال میں ہے بہر حال وہ دوپہر کو کچھ دیر کے لئے گھر

 چلی جاتی اور پھر واپس آ جاتی ،مجھے بھی اپنی بیٹی کی جانب سے سکون رہتا کہ وہ بھی اس کے آ جانے سےہہلی رہتی تھی اور میں

 سکون سے اپنے کام کاج نمٹا لیتی تھی  ،کئ مہینے یوں ہی گزر گئے


،پھر ایک دن وہ سہ پہر میں میرے گھر نہیں آئ ،مغرب سے کچھ

 پہلے اس کے بڑے بھائ نے آکر اس کے لئے پوچھا تو میں نے بتا یا کہ آج تو سہ پہر میں آئ ہی نہیں ہے،پھر محلّے میں اس کو تلاش

 کیا گیا تو بھی نہیں ملی کسی نے کہا ٹینک تو جھانک لو ،ٹینک دیکھا گیا تو بچّی کی لاش پانی پر تیر رہی تھی،پوچھنے پر معلوم ہواکہ سہ پہر

 میں بچّی کی امّاں کے پاس ان کے ا یک چہیتے دوست آئے ہوئے تھے بچّی امّاں کو بات نہیں کرنے دے رہی تھی تو امّاں صاحبہ نے

 بچّی کے ہاتھ میں کچھ پیسے دے کر کہا جاؤ دکان سے سپاری لے کر کھا لو بچّی نے دکان سے سپاری خریدی اور گھر کے اندر تک آگئ

 لیکن ٹوٹی لکڑی کے ڈھکنے والے ٹینک کے اندر گر کر مر گئ ،داکٹر نے بچّی کی ماں کی سونے کی چوڑیوں سے بھری کلائ دیکھ کر

 طنزیہ کہا تھا کہ محترمہ اگر آپ اپنی ایک چوڑی بھی فروخت کرتیں تو ٹینک کا لوہے کا ڈھکّن خریدا جاسکتا تھا .

ما ں کی بے حسی کی کہانی

ممّا ممّم دے دو ....وہ معصوم جان ما ں سے کہتی رہی ،ماں نے کہا جاؤ بھائ سے لے لو

اس معصو م نے ابھی چند الفاظ ہی بولنے سیکھے تھےگرمیوں کے دنوں کی سخت جلتی دوپہر تھی ما ں باورچی خانے میں کھانا پکا رہی

 تھی ایسے میں ننھی بچّی اپنے پانی پینے کی چھوٹی سی کٹوری لے کر ماں کے پاس آئ اور اس نے ماں سے کہا ممّا ممّم دے دو-ماں نے

 جواب میں کہا جا ؤ بھائ سے لے لو میں کام کر رہی  ہوں بچّی چلی گئ اس نے جا کر بھائ سے پانی کی فرمائش کی بھائ میٹرک کے

 امتحان کی تیاری کر رہا تھا اس نے کہا جا کر ممّا سے کہو ، بچّی بھائ کے پاس سے بھی چلی گئ اب ماں سمجھ رہی تھی بچّی بیٹے کے پاس

 ہئے اور بھائ سمجھا کہ بہن ماں کے پاس ہئے جب ماں کام سے فارغ ہوئ تواس نے بیٹے سے پوچھا کہ بچّی کہاں ہے بیٹے نے کہا میں

 نے تو اس کو آپ کے پاس بھیج دیا تھا اب بچّی جو گھر میں ڈھو نڈی گئ تو گھر کے آنگن میں دھوپ میں رکھّئ ہوئ جلتے پانی کی بالٹی

 میں بچّی کی لاش اپنے پانی پینے کی کٹوری سمیت پڑی ہوئ تھی

 مضمون کے آخر میں معذرت خواہ ہوں اگر کسی ماں کو اس تحریر میں اپنا چہرہ نظر آئے


1 تبصرہ:

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر