جمعہ، 10 مارچ، 2023

لپروسی ہسپتال منگھو پیر کراچی

 





 قیام پاکستان سے پچاس برس پہلےکراچی سے چالیس میل کے فاصلے پر منگھوپیر کی پہاڑیوں  کے  دامن میں قائم ہونے والا جذام اسپتال اس وقت کے دور میں بہترین اور مثالی کارکردگی،انسانیت کی خدمت اور جذام کے خلاف جدوجہد کی ایک داستان لپروسی اسپتال منگھوپیر کراچی ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ عہد قدیم سے ہی جذام یا کوڑھ کے مرض نے ہمیشہ دنیا بھر کے انسانوں کو انتہائی دہشت زدہ رکھا ہوا ہے، اس مرض میں مبتلا مریضوں کی جلد سن اور رنگت تبدیل ہوتی ہے، گرم و سرد کا احساس جاتا رہتا ہے، عضلات شل ہوجاتےاور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، بھنوؤں کے بال گرنے لگتے ہیں، چہرا سوج جاتا ہے،ہاتھ پاؤں اور جسم کے دوسرے اعضاء موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں ،جس سے مریض انتہائی خوف ناک شکل اختیار کرجاتا ہے۔ ابتداء میں جب اس مرض کا علاج شروع نہیں ہوا تھا تو مریض کو مرنے کے لئے دور دراز علاقوں میں چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ یہ مرض دوسرے کسی شخص کو منتقل نہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ 1896ء میں ایک بنگالی ڈاکٹر، بی ایل رائے ایک تقریب میں منگھوپیر میں گرم چشمے کے کنارے پکنک منانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کھلے آسمان تلے جذام میں مبتلا مریض بے یار و مددگارکھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان مریضوں میں بھارت، ایران، افغانستان اور دیگر ملکوں کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مریض شامل تھے۔

 

انہیں اس بات کا یقین دلایا جاتا تھا کہ وہ گرم پانی کے چشمے سے نہا کرصحت یاب ہوجائیں گے، دوسری بات یہ تھی کہ عزیز و اقارب اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں یہ مرض انہیں نہ لگ جائے ان مریضوں کو یہاں چھوڑ دیتے تھے ،اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتے تھے۔ ڈاکٹر بی ایل رائے نے اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ پیسے جمع کئے اور ایک خانقاہ تعمیر کرائی، تاکہ ان مریض کو جنہیں مرنے کے لئے ان کے خاندان کے افراد یہاں چھوڑ گئے ہیں کچھ سہارا ملے، خانقاہ کا افتتاح بھی 1896 ء میں ہی کیا گیا، 27 برس تک اس خانقاہ کے علاوہ ان مریضوں کے لئے کچھ نہ ہوسکا اور جذام میں مبتلا کئی مریضوں نے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی۔ 

 

خانقاہ کے علاوہ علاج معالجے کی کوئی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں تھی، پھر 1923 ء میں چار ممتاز افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں کلکٹر آف کراچی کو صدرآر ایس سیٹھ، آر ایس جوکا رام ڈنومل کو نائب صدر، جمشید نسروانجی مہتا اوربھگو مل کو ممبران کے طور پر کمیٹی میں رکھا گیا،ان ممبران کے علاوہ بھی دیگر اہم شخصیات کو ان مریضوں کی دیکھ بھال کی دعوت دی گئی تاکہ زندگی سے مایوس ان مریضوں میں امید کی کرن جاگ جائے اور یہ شخصیات ان

 

کی دیکھ بھال میں معاونت کرسکیں۔
کمیٹی نے مریضوں کو کھانا کھلانے کی سہولتیں فراہم کرنا شروع کیں اور 1923 ء میں ہی دو نئے وارڈ تعمیر کئے جن میں 34 مریضوں کو علاج معالجے، کھانے پینے اور کپڑے فراہم کرنے کی سہولت دی گئی۔1944 ء میں ہیلتھ سروے اینڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی مرکزی حکومت انڈیا کی اس وقت کی سروے رپورٹ کے مطابق یہ اسپتال ایک بڑا ادارہ بن چکا تھا ،جس میں 200 سے زائد مریضوں کی گنجائش تھی یہاں مریضوں کے قیام، طعام اور علاج کا بہترین انتظام تھا، کراچی کے پہلے میئر اور ممتاز سماجی شخصیت جمشید نسروانجی مہتا جو اس کمیٹی کے ممبر تھے اگلے تیس برس تک انتہائی سرگرمی کے ساتھ ان مریضوں کی خدمت کرتے رہے۔ 1952 ء میں جمشید نسروانجی نے اپنی زندگی کے آخری ایام بھی اس اسپتال میں مریضوں کے ساتھ گزارے 

 

۔ان کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کو علاج کے علاوہ محبت اور دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ جمشید نسروانجی آخری دم تک جذام کے ان مریضوں کے ساتھ رہے، جو ہمدردی، محبت اور تیمارداری کی ایک روشن مثال ہے
1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس اسپتال کی دیکھ بھال پاکستان لپروسی ریلیف ایسوس ایشن نے اپنےذمے لے لی ، اس تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر امین عبدالحفیظ تھے،1960ء تک یہ اسپتال اسی ادارے کے زیر انتظام رہا۔ جولائی 1960 ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسپتال کا انتظام و انصرام بلدیہ کے سپرد کردیا جائے تاکہ اسپتال کو مزید بہتر بنایا جائے، صاف پانی کے حصول کے لئے تگ و دو کی جائے اور مریضوں کو بہتر سہولیات مہیا کی جائیں، ڈاکٹر ایم مظفر کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ آفیسر مقرر کیا گیا، جبکہ 1962ء میں بلدیہ کے ایک اور ڈاکٹر سید جعفر علی ہاشمی کو اسپتال کا میڈیکل انچارج مقرر کیا گیا۔ 

بلدیہ کراچی نے 1963 ء میں لپروسی اسپتال کے لئے پہلی مرتبہ باقاعدہ بجٹ مختص کیا جو دو لاکھ روپے تھا، اس میں 70 ہزار 500 روپے انتظامی اخراجات اور ایک لاکھ 22ہزار 500 روپے مریضوں کے علاج اور سہولتوں کی فراہمی کے لئے مختص کئے گئے، یہ اقدام جذامی مریضوں کو باقاعدہ اور مسلسل طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اٹھایا گیا جو اس سے قبل ایسوسی ایشن کے اشتراک سے کیا جاتا تھا، یوں یہ اسپتال بلدیہ کے زیر انتظام ایک باقاعدہ طبی ادارہ بن گیا۔
1963ء میں ہی دو عیسائی بہنوں نے اعزازی طور پر لپروسی اسپتال میں خدمات انجام دینا شروع کیں، مریضوں کو صحت کی ضروری بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوائیں، خوراک اور کپڑے بھی فراہم کئے جانے لگے، بلدیہ کراچی نے ایک اور سماجی تنظیم جرمن ویلفیئر سوسائٹی کے تعاون سے ایک ڈاکٹر اور دو اسٹاف نرسوں کو اسپتال میں تعینات کردیا ،تاکہ مریضوں کو بروقت طبی امداد دی جاسکے۔1966 ء میں لپروسی انٹرنیشنل مشن نے ڈاکٹر گریس وارن ،کو اسپتال بھیجا، ان کا تعلق آسٹریلیا تھا اور یہ ماہر ڈاکٹر 
اکٹر رتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ (جرمن: Ruth Katherina Martha Pfau)  رتھ فاؤ (1929ء تا 10 اگست 2017ء) ایک جرمن ڈاکٹر، سرجن اور سوسائیٹی آؤ ڈاٹرز آف دی ہارٹ آؤ میری نامی تنظیم کی رکن تھیں۔ انہوں نے 1962ء سے اپنی زندگی پاکستان میں کوڑھیوں کے علاج کے لیے وقف کی ہوئی تھی۔ 1996ء میں عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کو قابو میں قرار دے دیا۔ پاکستان اس ضمن میں ایشیا کے اولین ملکوں میں سے تھا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کا انتقال 10 اگست 2017ء کو کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ہوا۔

ابتدائی زندگی
9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہونے والی رُتھ کیتھرینا مارتھا فائو کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے فرار پر مجبور ہونا پڑا۔ مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور 1949 میں "مینز" سے ڈگری حاصل کی۔ زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُتھ کو ایک مشنری تنظیم "دختران قلب مریم" تک لے آئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا۔
پاکستان کے لیے خدمات-سن 1958ء میں ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔ 1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھجوایا۔ یہاں آکر انہوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سے فری کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔ "میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر" کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اسی دوران میں ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی ہسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رُتھ فاو، ان کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

نمایاں پوسٹ ۔ دین مبین اسلام کا سیاسی نظام خدا نے مشخص کر دیا ہے

میرا افسانہ (ڈے کئر کی بیٹی)اشاعت مکرر

  `شہرشہر کے پوش علاقے میں اپنے نئے بنوائے ہوئے  عالی شان اور پر شکوہ حویلی نما گھر میں  ممتاز کاروباری شخصیت نصیر شاہ کو آئے ہوئے کئ مہینے ...

حضرت عبد المطلب کی منت کی کہانی'اوداع فاطمہ صغرا الوداع'،یاد آو گے بھیّابعد عاشور جو گزری آل نبی پر