حسن علی آفندی (ولادت: 14 اگست 1830ء) ہندوستان کے ایک نامور مسلم دانشور تھے۔ وہ حیدرآباد، سندھ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے مگر خود اپنی محنت سے تعلیم حاصل کرکے آگے بڑھتے گئے حتی کہ انھوں نے وکالت کی تعلیم مکمل کر لی۔سندھ میں تعلیم کا سفر-حسن علی آفندی بھی سرسید کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے اگر جدید تعلیم حاصل نہ کی تو وہ ہر لحاظ سے پیچھے رہ جائیں گے اور ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے ایک پڑھی لکھی جدید علو م سے آراستہ قوم کی ضرورت ہو گی ۔ اپنی سوچ اپنا مقصد لے کر وہ میدان عمل میں اتر پڑے -حسن علی آفندی نے وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران اس راستے میں کئی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کیا، اسی دوران انھیں سندھ کے مسلمان نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارہ بنانے کا خیال آیا۔ تب انھوں نے ہندوستان کی قابل شخصیات اور مخیّر لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کی مدد اور تعاون حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ 1885ء میں حسن علی آفندی نے کراچی میں سندھ مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ایک اسکول تھا، بعد میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ سندھ مدرسہ نے ثابت کیا کہ حسن علی آفندی اور ان کے ساتھیوں کا ایک جدید درس گاہ کے قیام کا فیصلہ مسلمانوں کے وسیع تر مفاد میں تھا کیوں کہ بعد میں اسی ادارے سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ کئی ایسے مسلمان راہ نما نکلے جنھوں نے مسلمانوں کی اصلاح اور تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا
۔ حسن علی آفندی نے علی گڑھ کا سفر کرکے سر سید احمد خان سے ملاقات کی اور پھر علی گڑھ تحریک کی پیروی کرتے ہوئے سنٹرل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کے قائم کردہ سندھ مدرسہ بورڈ کے تحت سندھ مدرسۃ العلوم کی بنیاد رکھی۔ اس ایسوسی ایشن کے قیام کا فیصلہ جسٹس امیر علی کے دورہ سندھ کے موقع پر کیا گیا تھا۔حسن علی آفندی نے نوشہروفیروز میں ڈپٹی کلکٹر کے دفتر میں منشی گری سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی دوران انگریزی, سندھی, عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا،پھر وہ ایک کلرک کے طور پر کوٹری میں ایک اسٹیم کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ جس کے بعد عدالتی کلرک کے طور پر ملازم ہوئے اور ساتھ ہی قانون کی تعلیم مکمل کرکے وکالت شروع کردی ، وہ سندھ کے پہلے مسلم وکیل تھے، جب کہ ہندو وکیل دیارام جیٹھ مل اور اودھا رام مول چند پہلے ہی وکالت کررہے تھے۔1881 میں حسن علی آفندی کراچی میونسپلٹی کے کونسلر منتخب ہوئے۔ تین چار سال کے عرصے میں ہی کراچی میں محمڈن ایسوسی ایشن کی شاخ قائم کی۔ سندھ مدرسہ بورڈ کے پہلے صدر حسن علی آفندی اور نائب صدر خان بہادر نجم الدین تھے جب کہ ارکان میں سیٹھ علی بھائی کریم جی, سیٹھ غلام حسین چھا گلہ, سیٹھ صالح محمد ڈوسل, غلام حسین خالق دینا وغیرہ شامل تھے۔1890 میں سندھ مدرسے کے دو شعبے تھے ایک انگریزی اور دوسرے کا تعلق مقامی زبانوں میں تعلیم سے تھا، جس میں سندھی, گجراتی اور اردو کی تعلیم چوتھی جماعت تک دی جاتی تھی ۔
گو کہ سندھ مدرسہ ہائی اسکول تھا لیکن پرائمری اور مڈل کے بعد بہت سے بچے تعلیم منقطع کردیتے تھے۔ لیکن 1900 تک مدرسے میں بچوں کی تعداد کوئی پانچ سو کے قریب تھی جن میں کراچی کے طلبا کی اکثریت تھی جو زیادہ تر مسلم تھے۔ ہندو طلبا دس فی صد سے بھی کم تھے۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا پورا نام سندھ مدرسۃسندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر مصطفیٰ جتوئی انڈپینڈنٹ اردو کو اس ادارے کی تاریخ کے حوالے سے بتایا: ’18ویں صدی میں اس خطے میں کوئی مشنری یا ماڈرن سکول نہیں تھا جو بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دے تو اس وقت خان بہادر حسن علی آفندی کو یہ خیال آیا کہ یہاں پر ایک ایسا سکول ہونا چاہیے۔ پھر اس وقت حسن علی آفندی نے لوکل گورنمنٹ سے یہ زمین لی اور یہاں پر یہ سندھ مدرستہ الاسلام سکول قائم کیا۔‘آج آفندی کے بنائے ہوئے اس تعلیمی ادارے کی آغوش سے نکلے ایس ایم لا کالج سمیت کئی تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برٹش گورنمنٹ نے انھیں خان بہادر کا خطاب دیا۔ حسن علی آفندی آل انڈیا مسلم لیگ میں بھی شامل رہے اور مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے رکن بھی رہے۔ سنہ 1934ء سے 1938ء تک وہ سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ انھوں نے محمد علی جناح کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کو مسلمانوں میں متعارف کرانے کا کام کیا۔
اس کے ساتھ انھوں نے مصر، فلسطین، شام، عراق، یمن، سعودی عرب اور امریکا کا دورہ بھی کیا اس زمانے میں میٹرک کا امتحان بمبئی یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام ہوتا تھا۔ گجراتی پڑھنے والوں میں ہندو اور مسلم دونوں تھے جن میں خوجے, بوہرے اور میمن زیادہ تھے۔سندھ مدرستہ الاسلام سکول میں برطانوی دور کے انسپیکٹر جیکب سمیت کئی حکومتی ملازمین انگریزی زبان کی تعلیم دیتے تھے-ا س سکول میں سندھ کو بمبئی سے علیحدگی کی تحریک چلانے والے سر شاہ نواز بھٹو، غلام حسین ہدایت اللہ، سر عبداللہ ہارون سمیت کئی لیڈروں نے تعلیم حاصل کی۔اس کے علاوہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح، ٹیسٹ کرکٹر محمد حنیف، سندھ کے مشہور سیاست دان رسول بخش پلیجو، ابراہیم جوئیو سمیت کئی اہم شخصیات نے یہاں پر اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اس ادارے کا دوسرا سفر 1943 میں شروع ہوا اور سکول کو کالج کا درجہ ملا اور قائداعظم محمد علی جناح نے خود اس کا افتتاح کیا۔قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زاتی جائداد میں سے جن اداروں کو حصہ دیا، ان میں سے ایک سندھ مدرستہ الاسلام بھی ہے۔پھر اس مدرسے نے آہستہ آہستہ سکول سے کالج اور پھر فروری 2012 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، جس کا نام سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی رکھا گیا۔ ’18ویں صدی میں اس خطے میں کوئی مشنری یا ماڈرن سکول نہیں تھا جو بچوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دے تو اس وقت خان بہادر حسن علی آفندی کو یہ خیال آیا کہ یہاں پر ایک ایسا سکول ہونا چاہیے۔ پھر اس وقت حسن علی آفندی نے لوکل گورنمنٹ سے یہ زمین لی اور یہاں پر یہ سندھ مدرستہ الاسلام سکول قائم کیا۔
شروع میں جامعہ بنتے وقت اس میں پانچ شعبے تھے اور اب یہاں بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے 20 کے قریب مختلف شعبہ جات ہیں۔سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں ایک میوزم بھی قائم ہے جس میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال چیزیں اور قائداعظم محمد علی جناح کے داخلے کا رجسٹر بھی موجود ہے، جس میں ان کے اس سکول میں داخلہ لینے کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے سندھ مدرستہ الاسلام سکول میں ساڑھے چار سال کے عرصے تک تعلیم حاصل کی تھی۔اس کے علاوہ میوزم میں مختلف اہم شخصیات کی تصاویر وغیرہ بھی موجود ہیں، جنہوں نے یہاں سے تعلیم حاصل کی تھی۔ -اور 20 اگست 1895 ء میں وہ اپنی مادر وطن کے فرزندوں کا حق ادا کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے ان کا نام فلاح و بہبود کے کاموں اور تعلیم و تربیت کے میدان میں ان کی خدمات کی وجہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
جواب دیںحذف کریں