روائت ہے کہ بعد از ولادت امام حسین علیہ السّلام حضرت جبرئیل امیں تشریف لائے اور جناب رسول خدا کو نومولود بچّے کی مبارکباد کے ساتھ اس کی شہادت کی سے بھی آگاہ کیا تو رسول اللہ نے بے اختیار گریہ کیا -جب بی بی سیّدہ نے آپ کے گریہ کرنے کا سبب پوچھا تب آ پ نے جبرئیل امیں کا پیغام بی بی سیدہ کو بتایا تب بی بی سلام للہ علیہ روئیں اور پھر اپنے بابا جان سے دریافت کیا کہ جب میں آپ اور علی علیہ السّلام کوئ بھی دنیا میں نہیں ہو گا میرے بچّے کی نصرت کے لئے کون ہو گا فرمایا کہ جب دنیا میں آپ وعلی مرتضےٰ کوئی نہ ہوں۔تو اللہ ایک قوم پیدا کرے گا جو تا قیامت تمھارے حسین پر گریہ کرے ۔یہ تمہاری نور نظر زینبؑ اپنے بھائی کی عزادار ہو گی۔اور اپنے دو جگر کے ٹکڑے حسینؑ پر قربان کرئے گی -الغرض جب وہ زمانہ آیا اور امام ؑ مظلوم دشمنوں کے ظلم وجور سے تنگ آکر مدینہ سے کربلا پہنچے اور نرغہ کفار میں گھر گئے۔ تو آخر صبح عشرہ محرم بعد فراغت نماز ناخدائے جہاز آل نبیؑ یعنی فرزند زہراؑ وعلیؑ مع عزیز وانصار آمادہ پیکار ہوا۔
بعد شہادت اصحاب باوفا جب عزیزان ماہ لقا کی باری آئی ۔تو حضرت عون و محمدؑ کو جوش شجاعت نے بے تاب کیا تو جناب امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اجازت جہاد طلب کی۔مگر آپ ادھر عون محمدؑ جناب امام حسینؑ سے رخصت پر مصر تھے۔آخر دونوں کو لیے ہوئے امام کون ومکان داخل عصمت سرائے ہوئے۔ان کے پیچھے پیچھے جناب علی اکبرؑ بھی تشریف لائے۔ حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مقدسہ جس طرح کائنات کی اعلیٰ ترین ہستی ہیں اسی طرح اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے آپ کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں جیسے آپ کی قربانیاں سب سے اعلیٰ ہیں ویسے ہی آپ کے خاندان کی قربانیاں بھی سب سے اعلیٰ ہیں ۔کربلامیں معرکہ آرائی ان کی کم عمری کے باوجود بھی بے مثال اور لازوال ہے ۔ حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام جب مکۃ المکرمہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت یہ دونوں صاحبزادگان ہمراہ نہ تھے لیکن جب حضرت امام عالی مقام کا قافلہ مکہ سے ابھی تھوڑی دور ہی پہنچا تو اس وقت حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام کے ہمراہ ان دونوں شہزادوں کو آپ کے پیچھے روانہ کیا
مشہور مفسرو محدث و مؤرخ امام طبری نے اپنی تاریخ میں بایں الفاظ نقل کیا
ہے : میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپ آگے نہ جائیں کیونکہ میں
آپ کے بارے میں اس حوالے سے انتہائی پریشان ہوں کہ آپ نے کوفہ جانے کا قصد کیا
ہے تووہاں آپ کے لئے اور باقی اہل بیت کے لئے انتہائی ابتلاو تکالیف ہیں اگر خدا
نخواستہ آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو روئے زمین سے نور ہدایت بجھ جائے گا ۔ آپ ہدایت
یافتہ لوگوں کے پرچم ہیں اور مومنوں کے لئے امید ہیں سفر میں جلدی نہ کریں ۔ ۔ میں
بھی اپنے خط کے پیچھے پہنچ رہا ہوں ۔ ان دونوں شہزادوں نے اپنے والد محترم کا یہ پیغام
آپ تک پہنچادیا ۔ چنانچہ اس کے بعد گورنر مکہ سے ضمانت حاصل کرکے حضرت عبد اللہ
بن جعفر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے ۔ آپ کو مکہ میں روکنے کے لئے تمام معاملات
آپ کے گوش گذار کئے تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ میں نے خواب میں نانا جان کی
زیارت کی ہے اور آپ نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں وہ کام ضرور
کروں گا خواہ مجھے اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے ۔
انہوں نے پوچھا کہ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے کیا حکم ارشاد فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں وہ حکم آپ کو جیتے
جی نہیں بتا سکتا حتیٰ کہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن
جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں فرزند حضرت عون اور حضرت محمد علیہم السلام کو
آپ کے ہمراہ روانہ کردیا اس طرح یہ دونوں شہزادگان امام عالی مقام علیہم السلام کی
معیت میں کربلا تک پہنچے ۔ جب معرکہ کربلا شروع ہوا تو اس وقت امام عالی مقام کی
غمگسار ہمشیرہ محترمہ حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے برادر مکرم کی خدمت
میں دلگیر انداز میں بصد ادب و احترام عرض گذاری : پیارے بھائی جان اس وقت جب کہ
ہم انتہائی مصائب و آلام کا شکار ہیں نانا جان نے ارشاد فرمایا تھا کہ صدقہ مصیبتوں
کو ٹالتا ہے تو کیوں نہ ہم بھی صدقہ پیش کریں ؟
۔ آپ نے ارشاد فرمایا پیاری بہن اس بے سرو
سامانی کے عالم میں ہم کیا پیش کرسکتے ہیں تو حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے
عرض کی کہ یہ میرے دونوں شہزادے ہیں میں انہیں آپ پر صدقہ کے لئے قربان کر رہی
ہوں ۔ آپ انہیں میدان جنگ میں جانے کی اجازت مرحمت فر ما دیں ۔ آپ نے تڑپ کر
ارشاد فرمایا تمہارا بھائی اپنی جان بچانے کے لئے کبھی بھی اپنے بہن کے گھر کو ویران
نہیں کرسکتا۔ سیدہ نے عرض کی آپ نے زندگی میں کبھی بھی میری کوئی بات نہیں ٹالی
اس لئے آج بھی میری بات ضرور مان لیں میں یہ کیسے گوارہ کرسکتی ہوں کہ دشمن آپ کی
شہادت کے درپے ہو اور میں اپنے بچوں کو بچاتی پھروں ۔ بہر حال آپ کے اصرار
بالتکرار سے مجبور ہو کر آپ نے اشکبار آنکھوں سے اجازت مرحمت فرمادی ۔ چنانچہ
حضرت عون و محمدعلیہما السلام تیار ہو کر میدان کارزار میں پہنچ گئے اور دشمن کو
للکارا ۔ان دونوں نے لشکر یزید پر دائیں اور بائیں دونوں اطراف سے زوردار حملہ کر
دیا ہر چند کہ عمرو بن سعد ، شمر اور دیگر کچھ لوگوں نے انہیں اپنی طرف مائل کرنے
کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوششیں رائگاں ہو گئی کہ جب انہوں نے اپنی تمام تر قوت
مجتمع کرکے ان پر حملہ کر دیا اور یوں ہاشمی شیروں نے کشتوں کے پشتے لگانے شروع
کردئیے قوتِ خیبر شکن کا بھر پور اظہار ہو رہا تھا اور دشمن ان اچانک حملوں سے حیران
و ششدر تھا کہ کس طرح ان بچوں کو روکا جائے جبکہ دوسری طرف یہ بچے تھے کہ بجلی کی
سی سرعت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے تھے اور دشمن گاجر مولی کی طرح کٹتے جارہے تھے ۔
چشم فلک عجیب نظارہ کر رہی تھی کہ دو
بچوں کے آگے ایک تجربہ کار فوج بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگی پھر رہی تھی اور ان بچوں
کے حملے تھے کہ تھمنے کانام نہیں لے رہے تھے اچانک دشمنوں نے یکبارگی حملہ کر دیا
جبکہ اس دوران اکتیس دشمن ان کے ہاتھوں واصل جہنم ہو چکے تھے ۔ اشقیاء میں سے عبد
اللہ بن قطنہ نے حضرت عون علیہ السلام اور عامر بن نہشل تمیمی نے صاحبزادہ محمد علیہ
السلام کو اپنی اپنی تلواروں کے وار سے شہید کر دیا یوں ان جان نثار بھانجوں نے
اپنے پیارے ماموں جان پر اپنی اپنی جانیں نثار کرکے اپنے ننھیالوں کو حق وفاداری ادا
کرکے شہیدانِ کربلا میں شامل ہوتے ہوئے ایک عظیم داستان رقم کر دی اور درجہ شہادت
پر فائز ہوتے ہوئے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہوئے جنت کی راہ لی اوراللہ تعالیٰ اور اس
کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا حاصل کر لی ۔ حضرت عون و محمد علیہم
السلام نے اپنے کردار سے ثابت کردیا کہ کامیابی طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ جرأت ایمانی
کے ساتھ حاصل ہوتی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں